پیغمبر ﷺ کی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے محبت اور ان کا احترام
جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) بات کرنے میں تمام لوگوں کی نسبت پیغمبر ﷺ سے زیادہ شباہت رکھتی تھی، جب آپ پیغمبر ﷺ کے پاس جاتیں تو پیغمبر ﷺ آپ کا ہاتھ پکڑتے اوراسے بوسہ دیتے اورجناب فاطمہ (ع) کو اپنی جگہ بٹھاتے اور جب رسول خدا ﷺ جناب فاطمہ (ع) کے پاس جاتے تو آپ والد کے احترام کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور آپ کے ہاتھ چومتیں اور اپنی جگہ آپ کوب ٹھلاتیں ۔(1)
ایک دن جناب عائشہ نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) کو بوسہ دے رہے ہیں تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اب بھی آپ فاطمہ (ع) کو چومتے میں کتنا فاطمہ (ع) کو دوست رکھتا ہوں تو تیری محبت بھی اس کے ساتھ زیادہ ہوجاتی، فاطمہ (ع) یہ انسان کی شکل وصورت میں حور ہیں، جب بھی میں بہشت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو اسے بوسہ د یتا ہوں ۔(2)
علی بن ابیطالب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ (ص) مجھے زیادہ دوست رکھتے ہیں یا فاطمہ (ع) کو؟ تو آپ نے فرمایا تم عزیز ترین ہو اور فاطمہ محبوب تر (3)۔
جناب فاطمہ (ع) فرماتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی کر:
[لاتجعلوا دعا الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا]یعنی پیغمبر ﷺ کو اپنی طرح آواز نہ دیا کرو۔ تو میں اس کے بعد بابا جان کے لفظ سے آپ کو خطاب نہ کرتی تھی اور یا رسول اللہ (ص) کہا کرتی تھی، کئی دفعہ میں نے آپ کو اسی سے آواز دی تو آپ نے میرا جواب نہ دیا اور اس کے بعد فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) یہ آیت تمہارے اور تمہاری اولاد کے بارے میں نازل نہیں ہوئی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، یہ آیت قریش کے متکبر افراد کے لئے نازل ہوئی ہے، تم مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو کیونکہ یہ لفظ میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور پروردگار عالم کو خشنود کرتا ہے (4)۔
جناب عائشہ سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو آپ نے کہا کہ فاطمہ (ع)، اس کے بعد پوچھا گیا کہ مردوں میں سے زیادہ محبوب کون تھا تو آپ نے کہا فاطمہ (ع) کے شوہر علی (ع) ۔(5)
جب تک پیغمبر (ص) فاطمہ (ع) کو چوم نہ لیتے سویا نہیں کرتے تھے (6)۔
پیغمبر (ص) جب سفر کو جاتے تھے تو آخری آدمی جسے وداع فرماتے تھے فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو پہلا شخص جس کی ملاقات کو جلدی جاتے فاطمہ (ع) ہوتیں (7)۔
پیغمبر(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے خوشنود کرے گا اس نے مجھے خوشنود کیا، اور جو شخص اسے اذیت دے گا اس نے مجھے اذیت دی سب سے عزیز ترین میرے نزدیک فاطمہ (ع) ہیں(8)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا (ص) حد سے زیادہ اور معمول اور متعارف سے بڑھ کر جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار اس حد تک کرتے تھے کہ بسا اوقات اعتراض کئے جاتے تھے البتہ ہر باپ کو طبعی طور پر اولاد سے محبت ہوتی ہے لیکن جب محبت اورتعلق معمول سے تجاوز کرجائے تو اس کی کوئی خاص وجہ اور علت ”جو فطری محبت کے علاوہ ہو، ہونی چاہیئے، ممکن ہے حد سے زیادہ محبت کا اظہار جہالت اور کوتاہ فکری کی وجہ سے ہو لیکن اس علت کی پیغمبر(ص) کی ذات کی طرف نسبت نہیں دی جاسکتی،کیونکہ اللہ تعالی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے:( انک العلی خلق عظیم) (9)۔ ”یعنی خلق عظیم کے مالک ہو۔
پیغمبر(ص) کے تمام کا وحی الہی کے ماتحت ہوا کرتے تھے اللہ تعالی فرماتا ہے ( ان هو الا وحيٌ یوحی) (10)۔ بس خدا کے رسول کا ان تمام غیر عادی محبت کے اظہار میں کوئی اور منشا اور غرض ہونی چاہیئے۔
جناب رسول خدا(ص) نے اپی بیٹی فاطمہ (ع) کے مقام و مرتبت کو خود مشخص کیا تھا اور آپ ان کے رتبے کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ جی ہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) ولایت اور امامت کی تولید کامرکز اور دین کے پیشواؤں کی ماں ہیں، اسلام کی نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہیں۔ حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی آپ کے بلند مقام کو درک نہیں کرسکتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کا نور آسمان کے فرشتوں کو روشنی دینے والا ہے، بہشت کی خوشبو کو فاطمہ (ع) سے استشمام کرتے تھے یہی علت تھی کہ آپ حد سے زیادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔
—
[2] کشف الغمہ، ج 2ص 85۔
[3] کشف الغمہ، ج 2 ص 88۔
[4] بیت الاحزان، ص 10۔
[5] کشف الغمہ، ج 2 ص 88۔
[6] کشف الغمہ، ج 2 ص 93۔
[7] دخائر العقیی ، ص 37۔
[8] مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 332۔
[9] سورہ قلم آیت 4۔
[10] سورہ نجم آیت 4۔
فہرست |