خطبہ فدک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اردو ترجمہ و تشریح: محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔علی ما الہم: الہام انسان کے نفس کے اندر ایک ایسی طاقت کا نام ہے جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس طاقت کو حجت باطنی کہتے ہیں نیز اسے عقل اور وجدان بھی کہا جاتا ہے ۔ کبھی ہم اسے ضمیر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ انسانی ضمیر میں اللہ تعالی نے خیر و شر، پاکیزگی و پلیدی، فسق و فجور اور تقوی کا ادراک اور فہم دویعت فرما دی ہے۔ اسی لئے یہ نفس اچھائی کی طرف بلانے والے اور برائی سے روکنے والے کی آواز پہچان لیتا ہے اور اسے پذیرائی ملتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ﴿﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا
(شمس ؍۷۔۸۔)
اور قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا پھراس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ عطا فرمائی
۲۔وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ سوال کے بغیر از خود عنایت فرماتا ہے ۔ دعائے رجبیہ میں آیا ہے:
یا من یعطیہ من لم یسئلہ ومن لم یعرفہ
اے وہ ذات جو اسے بھی عنایت فرماتا ہے جس نے نہ سوال کیا، نہ اس نے پہچان لیا۔
تشریح کلمات
۳۔ وہ نعمتیں جو تمام انسانوں کیلئے یکساں طور پر عنایت فرماتا ہے۔
۴۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا (سورہ النحل آیت ۱۸)
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے۔
۵۔جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے تو ان نعمتوں کا حق ادا کرنا یقینا ممکن نہیں ہے۔ یعنی کسی محدود عمل سے لامحدود نعمتوں کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے۔
۶۔بہت سی ایسی نعمتیں ہیں جن کی گہرائی اور ان کی انتہائی حدود انسان کے احاطۂ ادراک میں نہیں آسکتیں۔ بہت سی نعمتوں سے آج کا انسان آشنا ہے مگر کل کے انسان آشنا نہ تھے۔ اسی طرح انسانی ادراکات کا سلسلہ جاری رہے گا مگر ان نعمتوں کی آخری حدود تک پہنچنا ممکن نہیں۔
تشریح کلمات
۷۔جیسا کہ قرآن میں فرمایا:
لئن شکرتم لازیدنکم (۱)
اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا
نعمتوں پر شکر کرنا اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے ایسے لوگ ہی نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
شکر النعمۃ اجتناب المحارم و تمام الشکر قول الرجل: الحمد للّہ رب العالمین (ابراہیم؍ ۷)
حرام چیزوں سے اجتناب ہی نعمت کا شکر ہے اور شکر اس وقت پورا ہو جاتا ہے جب بندہ یہ کہدے: الحمدللہ رب العالمین۔
۸۔یعنی نیک اعمال کی دعوت دی تاکہ اس قسم کی نعمتیں آخرت میں بھی میسر آئیں۔
۹۔یعنی: ایک خدا پر ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ دوسرے خود ساختہ خداؤں سے بے نیاز ہو کر صرف اس قادر لایزال کے ساتھ وابستہ ہو۔ توحید عقیدتی کا لازمی نتیجہ توحید عملی ہے اور عمل میں توحید پرست ہونے یعنی صرف اور خالصۃً اللہ تعالی پربھروسہ کرنے کی صورت میں مؤحد جبرائیل جیسے مقتدر فرشتہ کو بھی اعتنا میں نہیں لاتا۔ چنانچہ یہ واقعہ مشہور ہے کہ آتش نمرود میں جاتے وقت جبرئیل نے حضرت ابراہیم ؑسے کہا تھا کوئی حاجت ہے؟ تو حضرت ابراہیم نے فرمایا :
اما الیک فلا
آپ سے نہیں۔
۱۰۔ماہرین نفسیات کی تحقیق میں یہ بات سامنے آگئی ہے :
’’معرفت الٰہی فطری ہے اس سے پہلے وہ ذوق جمالیات، انسان دوستی اور علم دوستی ہی کو فطری تصور کرتے تھے۔‘‘
اب معلوم ہو اہے کہ خدا پرستی ہر انسان کی فطرت اور جبلت میں موجود ہے، البتہ خدا پرستی کے خلاف منفی اثرات کی وجہ سے بہت سے لوگوں میں فطرت کے یہ تقاضے ابھر کر سامنے نہیں آتے، چنانچہ انسان دوستی ایک فطری امر ہونے کے باوجود بعض لوگوں پر منفی اثرات مترتب ہونے کی وجہ سے انسان دوستی کی جگہ وہ انسان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔
۱۱۔اللہ تعالیٰ حاسہ بصر کی محدودیت میں نہیں آ سکتا بلکہ رؤیت خدا کا تصور ہی شان الٰہی میں گستاخی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی علانیہ دکھانے کے مطالبے پر قوم موسیٰ پر عذاب نازل ہوا جس کا تذکرہ قرآن حکیم میں اس طرح آیا ہے:
فقالوا ارنا اللہ جھرۃ فاخذتہم الصاعقۃ بظلمہم (نساء ؍۱۵۳)
انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا۔
تشریح کلمات
۱۲۔ عدم سے وجود دینے کو خلق ابداعی کہتے ہیں اس معنی میں صرف اللہ تعالیٰ خالق ہے جبکہ اجزائے موجودہ کو ترکیب دینے کو بھی تخلیق کہا جاتا ہے، اس سے غیر اللہ بھی متصف ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں ہے :
و اذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی۔ ( سورہ مائدہ؍۱۱۰)
اور میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا۔
۱۳۔ ان اشیاء کی ایجاد و تخلیق پر صرف اور صرف اللہ تعالی کی قدرت اور ارادہ صرف ہوا ہے۔ حتی کہ کاف و نون بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ کن فیکون انسان کے فہم کے لیے صرف ایک تعبیر ہے۔
چنانچہ روایت میں آیا ہے:
فارادۃ اللہ الفعل لا غیر ذلک یقول لہ کن فیکون بلا لفظ ولا نطق بلسان (الکافی ۱؍۱۰۹)
ارادۂ خدا فعل خدا ہے جب وہ کن کہتا ہے وہ بغیر کسی لفظ اور زبانی نطق سے ہوتا ہے۔‘‘
تشریح کلمات
۱۴۔ اشیاء اپنی وجود اور اپنے بقا میں اللہ تعالی کی محتاج ہیں اللہ تعالی ان اشیاء کا محتاج نہیں ہے مگر ان اشیاء کو وجود دے کر اللہ اپنی کسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا، بلکہ ان مخلوقات کی خلقت کی غرض و غایت خود مخلوقات کی ارتقا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی بندگی انسانیت کیلئے معراج ہے کیونکہ بندگی کمال کے ادراک کا نتیجہ ہے اور کمال کا ادراک خود اپنی جگہ ایک کمال ہے لہذا اطاعت و بندگی انسان کے لئے ارتقا ء ہے۔
۱۵۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو نعمت وجود کے ساتھ بے شمار نعمتیں عنایت فرمائیں ہیں ہماری طرف سے اللہ کی اطاعت سے تو ان نعمتوں کا بھی حق ادا نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ اطاعت پر ثواب بھی مرحمت فرماتا ہے اور اپنی جنت کی دائمی زندگی عنایت فرماتا ہے۔ یعنی دنیا کی چند روزہ اطاعت کے عوض ابدی ثواب عنایت فرماتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں: اطاعت کے ایک لمحے کے مقابلے میں جنت میں ابدی زندگی عنایت فرماتا ہے۔
تشریح کلمات
۱۶۔ چنانچہ تغیر و تحریف کے باوجود آج بھی توریت و انجیل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کے بارے میں تصریحات موجود ہیں۔
توریت استثنا ۱۸۔۵۱ میں مذکور ہے:
’’ خداوندا ! تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھر یو‘‘۔
انجیل یوحنا میں آیا ہے:
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا مددگار ’’فارقلیط‘‘ بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا‘‘۔
’’فارقلیط‘‘ یونانی لفظ ہے اس کا تلفظPARACLETEہے اس سے مراد ہے عزت یا مدد دینے والا اس کا دوسرا تلفظ ’’فیرقلیط‘‘ ہے اور یونانی تلفظ PERICLITEہے جس سے مراد عزت دینے والا بلند مرتبہ اور بزرگوار ہے جو محمد اور محمود کے قریب المعنی ہے۔
تشریح کلمات
۱۷۔ اللہ کا علم معلوم کے وجود پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ معلومات کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ان پر احاطۂ علم رکھتا تھا۔ کیونکہ اللہ کے لئے بعد قبل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کے لئے زمانہ حائل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا علم زمانی نہیں ہے۔ اس کے علم کے لئے ماضی اور مستقبل یکساں ہے۔
چنانچہ امیر المؤمنین علی مرتضیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:
عالم اذلا معلوم و رب اذلا مربوب وقادر اذلا مقدور (نہج البلاغہ۹؍۱۴۷)
وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کوئی معلوم موجود نہ تھا اور اس وقت بھی رب تھا جب کوئی مربوب نہ تھا، اور اس وقت بھی قادر تھا جب کوئی مقدور نہ تھا۔
تشریح کلمات
۱۸۔ حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے امور الٰہی کی تکمیل ہوئی، احکام خداوندی کا نفاذ ہوا اور مقدرات حتمی کو عملی شکل مل گئی۔ اس کایہ واضح مطلب ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مظہر تکمیل امر الہٰی ہیں وہ مظہر ارادۂ خداوندی ہے انہیں کے ذریعہ مقدرات الہٰی مرحلہ علم سے مرحلہ وجود میں آتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
لولاک لما خلقت الافلاک (بحار الانوار ۱۵؍۲۷)
اگر آپ پیدا نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان کو بھی خلق نہ کرتا۔
۱۹۔چنانچہ حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب ؑ اسی مطلب کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
واہل الارض یومئذ ملل متفرقۃ واھواء منتشرۃ و طرائق متشتتہ، بین مشبہ للّہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھدیھم من الضلالۃ و انقذہم بمکانہ من الجھالۃ۔ (نہج البلاغہ)
اس وقت کرۂ ارض کے باشندے متفرق قوموں میں بٹے ہوئے تھے منتشر خیالات اور مختلف راہوں میں سرگرداں تھے کچھ اللہ کو مخلوق کے مانند سمجھتے تھے کچھ ملحد ومنکر تھے اور کچھ غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ایسے حالات میں اللہ نے محمدؐ کے ذریعہ ان کو گمراہی سے ہدایت بخشی اور ان کے ذریعہ انہیں جہالت سے بچا لیا۔
تشریح کلمات
۱۹۔ ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے از راہ محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے وصال کو اختیار فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے کو اختیار فرمایا ہو، چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عزرائیل کسی کی روح قبض کرنے کے لئے اجازت نہیں مانگتے لیکن صرف رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے موقع پر آپ سے اجازت طلب کی اور حضورؐ کی اجازت سے قبض روح عمل میں آیا۔
۲۰۔ احکام خداوندی اور وحی الٰہی کے پہلے مخاطبین وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے براہ راست احکام سنتے تھے۔ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا تھا کہ وہ ان احکام کو پوری دیانتداری سے حفظ کرکے دوسرے لوگوں تک امانتداری سے پہنچا دیں۔ چنانچہ آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
فلیبلغ الشاھد الغائب
حاضر لوگ غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔
البتہ ان احکام کو حفظ کرنے اور امانتداری کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے میں سب لوگ یکساں نہ تھے۔ کچھ لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتیں سنتے تو تھے لیکن کچھ سمجھنے کے اہل نہ تھے چنانچہ قرآن حکیم اس کی یوں گواہی دیتا ہے ۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ۔ حَتّٰی اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اَنِفًا۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبَعُوْآ اَھْوَآئَ ھُم (سورہ ٔ محمد آیت ۱۶)
اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ(کی باتوں) کو سنتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو جنہیں علم دیا گیا ہے ان سے پوچھتے ہیں کہ اس (نبی) نے ابھی کیا کہا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔
اسی طرح فرمودات رسولؐ کو پوری امانت کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے فریضے پر بھی لوگ یکساں طور پر عمل پیرا نہ ہوئے۔یہاں مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔
۲۱۔ زعیم حق سے مراد حضرت علی ؑ کی ذات ہو سکتی ہے۔ لہ‘ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹتی ہے یعنی اللہ کی طرف سے وہ ذات بھی تمہارے درمیان موجود ہے جس کی زعامت اور قیادت مبنی برحق ہے۔
۲۲۔ اس عہد سے مراد وہ عہد ہو سکتا ہے جو غدیر خم کے موقع پر لوگوں سے لیا گیا۔ چنانچہ غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ بہت سے جلیل القدر اصحاب رسول ؐ اور تابعین ؒکی متواتر روایت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے۔ ظاہر ہے ایک لاکھ کے مجمع نے رسول اللہؐ سے یہ حدیث سنی تھی تو حضرت زہرا ؑکے زمانے میں یقینا ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے رسولؐ اللہ سے یہ حدیث سنی تھی۔
۲۳۔ یہ ایک متواتر حدیث ثقلین کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی) یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ برصغیر کے محقق علی الاطلاق علامہ میر حامد حسین لکھنوی ؒ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب دو ضخیم جلدوں میں ’’عبقات الانوار‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی ہے۔
۲۴۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حدیث مروی ہے:
والفضیلۃ الکبری و السعادۃ العظمی من استضاء بہ نورہ اللہ ومن عقد بہ امرہ عصمہ اللہ ومن تمسک بہ انقذہ اللہ (بحار الانوار ۸۹؍۳۱)
قرآن سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑی سعاوت ہے جو اس کے ذریعے روشنی طلب کرے اللہ اسے منور کر دیتا ہے اور جو اپنے معاملہ کو قرآن سے وابستہ کرے اللہ اسے محفوظ رکھتا ہے۔ اور جو اس سے متمسک ہوا اللہ اسے نجات دیتا ہے۔
۲۵۔ قرآن مجید کا اتباع مؤمن کو مقام رضوان پر فائز کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ سورۂ توبہ آیت ۷۲ میں جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن کے ذکر کے بعد یوں فرمایا گیا ہے:
ورضوان من اللہ اکبر ذلک ہو الفوز العظیم
اور اللہ کی طرف سے خوشنودی ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی جنت کے اعلی ترین درجہ یعنی جنت عدن سے بھی بڑھ کر ہے۔ ممکن ہے ’’اکبر‘‘ سے مراد اکبر من کل شئیہو یعنی جنت کی تمام نعمتیں خواہ کتنی عظیم کیوں نہ ہوں رضائے رب کے مقابلہ میں کچھ نہیں اور ممکن ہے اکبر من ان یوصف ہو یعنی اللہ کی خوشنودی کی نعمت توصیف و بیان کی حد سے بڑھ کر ہے۔ مؤمن جب جنت میں رب رحیم کے جوار میں اس کی خوشنودی کی پرسکون اور کیف و سرور کی فضا میں قدم رکھے گا تو اس کے لئے ایک لمحہ بھی وصف و بیان سے بڑھ کر ہو گا۔
۲۶۔ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب تمام اعمال میں سب سے زیادہ ہے۔ پیغمبر اسلامؐ سے حدیث ہے:احب الاعمال الی اللہ الحال المرتحل حضرت امام زین العابدین ؑسے جب پوچھا گیا تو یہی فرمایا کہ بہترین عمل الحال المرتحل(العدۃ ص ۲۹۹)ہے یعنی قرآن کی تلاوت شروع کر کے ختم کرنا۔ اسی طرح قرآن کی تلاوت کا سننا بھی کار ثواب ہے۔ بلکہ جب تلاوت قرآن کی آواز آ رہی ہو تواسے توجہ سے سننا بھی موجب ثواب ہے۔
واذاقری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (سورہ اعراف آیت ۲۰۴)
جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
۲۷۔ اللہ تعالیٰ کی روشن دلیلیں جس کے پاس ہوں وہ یقینا کامیاب وکامران ہے۔ چنانچہ جب قل فللّہ الحجۃ البالغۃ کا مطلب حضرت امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا تو آپ ؑنے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر ایک بندہ سے سوال فرمائے گا کہ تو دنیا میں عالم تھا یا جاہل؟ اگر جواب دے کہ میں عالم تھا تو فرمائے گا: پھر تم نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے جاہل تھا تو فرمائے گا کہ تم نے علم حاصل کیوں نہیں کیا تاکہ تم اس پر عمل کرتا ؟یہی حجت بالغہ ہے جو اللہ اپنے بندے پر قائم فرماتا ہے۔ اگر انسان قرآنی تعلیمات حاصل کر کے اس پر عمل کرے تو اس صورت میں حجت اور دلیل اس کے پاس ہوتی ہے۔(امالی شیخ طوسی صفحہ ۹)
۲۸۔ (عزائم) فرائض اور واجبات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’رخص‘‘ آتا ہے جو مباحات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں رخص بھی ہیں اور عزائم بھی واجبات کا ذکر ہے اور مباحات کا بھی۔ مثلاً
وکلوا مما رزقکم اللہ حلالا طیبا(۵:۸۸)
جو حلال و پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اسے کھاؤ۔
۲۹۔ اس جملے کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ’’ اس کی طرف سے دعوت شدہ فضائل کو‘‘ ممکن ہے مندوب کا مطلب مستحبات ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مندوب لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہو یعنی ’’دعوت شدہ‘‘ـ
۳۰۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ غیر اللہ پرتکیہ کرنا سراسر ایمان کے منافی ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان اور غیر اللہ پربھی جن سے شرک لازم آتا ہو یہ دونوں ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ البتہ جہاں ایمان باللہ کمزور ہو جاتا ہے تو وہاں غیر اللہ پر بھروسہ کے لئے گنجائش نکل آتی ہے۔ لیکن جب ایمان پختہ ہو تو ایسی آلودگیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
۳۱۔ نماز اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا عملی اعتراف ہے۔جب بندہ خدا کی کبریائی کا معترف ہو جائے تواپنی کبریائی کا تصور نہیں کر سکتا لہٰذا نمازی تکبر کی بیماری میں مبتلا نہیں ہو سکتا جیسا کہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:
ولنا فی ذلک من تعفیر عتاق الوجوہ بالتراب تواضعاً والتصاق کرائم الجوارح بالارض تصافرا ً (نہج البلاغۃ)
اور ہمارے خوبصورت چہروں کو خاک پر رکھنے میں تواضع ہے اور اہم اعضاء کو زمین پر رکھنے میں فروتنی ہے۔
۳۲۔جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
خذ من امو آلہم صدقۃ تطہرھم و تزکیہم (سورۃ توبہ آیت ۱۰۳)
اے رسول آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجئے اس کے ذریعہ آپ ان کو پاکیزہ اور بابرکت بنائیں۔
یعنی زکوۃ وصول کرکے ان کو بخل، طمع، بے رحمی اور دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔ وتزکیۃ :یعنی سخاوت، ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے اوصاف کو پروان چڑھانا۔ اس طرح زکوۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ زکوۃ ’’انفاق‘‘ ایک عنوان ہے اس کی کئی اقسام ہیں مثلاً فطرہ، مالی کفارہ،عشر، خمس، صدقہ واجب اور صدقہ مستحب۔ البتہ فقہی اصطلاح میں زکوۃ کا لفظ معینہ نصاب پر عائد ہونے والے مالی حقوق کے ساتھ مختص ہے۔
۳۳۔ عبادات میں روزہ اخلاص کی خصوصی علامت اس لئے ہے کہ باقی عبادات کا مظاہرہ عملاً ہوتا ہے جن میں ریاکاری کا امکان رہتا ہے مگر روزہ دار کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے روزے کی حالت میں کچھ کھایا پیانہیں ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الصوم لی وانا اجزی بہ (الوافی ازفیض کاشانی ج۲ص۵طبع تہران
روزہ میرے لئے ہے اور میںخود اس کی جزا دوں گا۔
۳۴۔اطاعتنا: ہماری اطاعت ۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی اہل بیت کی اطاعت مراد ہے جیسا کہ فرمایا:
یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللّہ و اطیعواا لرسول ولا تبطلوا اعمالکم (سورہ محمد آیت۳۲)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔
۳۵۔ اگر امت اسلامیہ ائمہ اہل بیتؑ کی امامت پر مجتمع ہو جاتی تو اس امت میں تفرقہ وجود میں نہ آتا۔ امت محمدیہ میں جو بھی تفرقہ وجود میں آیا ہے وہ بنی ہاشم کے ساتھ محض حسد و عداوت کی وجہ سے آیا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے کہ جب مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حکومت قائم ہوئی تو اس کا یہ موقف بناکہ رسالتمآب ؐپر درود بھیجنے سے کچھ لوگوں کی ناک اونچی ہوتی ہے اس لئے میں درود نہیں بھیجتااس قسم کے کئی واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت تفرقہ اور ہلاکت سے محفوظ رہنے کا سبب ہے چنانچہ اہل بیت کا اہل زمین کے لئے امان ہونے کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً فرمایا:اہل بیتؑ سفینہ نوح ؑکے مانند ہیں، اہل ارض کے لئے امان اور باب حطّہ ہیں۔
(ملاحظہ ہو: صواعق محرقہ ابن حجر مکی صفحہ۱۷۸ طبع قاہرہ)
۳۶۔جہاد کی دو قسمیں ہیں:
i۔جہاد برائے دعوت اسلام۔ii۔جہاد برائے دفاع۔
جہاد برائے دعوت میں امام کی اجازت شرط ہے۔ امام خاص شرائط کے تحت دعوت کے لئے جہاد کا حکم صادر فرماتے ہیں اور جہاد برائے دفاع اس وقت واجب ہو جاتا ہے جب دشمن کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اس میں اذن امام شرط نہیں ہے اور یہ جہاد ہر ایک پر واجب ہو جاتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں : واللہ ما صلحت دین ولا دنیا الا بہ’’ قسم بخدا دین اور دنیا کی بہبودی صرف جہاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے‘‘۔
تشریح کلمات
۳۷۔ امر باالمعروف اور نہی از منکر اصلاح معاشرہ کے لئے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل با شعور معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کو استحصال کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ایک آگاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بصورت دیگر ایک تاریک اور شعور سے خالی معاشرے میں ہر قسم کی ظالم اور استحصالی قوتوں کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ حدیث میں مروی ہے : تم اگرامربالمعروف اور نہی از منکر کے عمل کو ترک کرو گے تو تم پر ایسے ظالم لوگ مسلط ہو جائیں گے جن سے نجات کے لئے تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔
۳۸۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے :
من اسخط والدیہ اسخط اللہ ومن اغضبھما فقد اغضب اللہ (مستدرک الوسائل)
جس نے والدین کو ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا اور جس نے والدین کو غصہ دلایا اس نے اللہ کو غصہ دلایا۔
۳۹۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واتقو اللہ الذی تساء لون بہ والارحام (نساء ؍ ۱)
اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (خوف کرو۔)۔
اس آیت مبارکہ میں صلہ ٔ رحمی کو خوف خدا کے ذکر کے ساتھ رکھا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
تشریح کلمات
۴۰۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (بقرہ؍۱۷۹)
اے صاحبان عقل ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔
یعنی قانون قصاص کے ذریعے قتل کا عمل رک سکتا ہے۔ اس طرح اس قانون کے نفاذ سے تمہاری زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔ چنانچہ اسلام کا قانون قصاص نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بعض قبائل میں آج بھی قتل کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
۴۱۔ شراب کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس افراد پرلعنت بھیجی ہے:
لعن رسول اللہ فی الخمر عشرۃ غارسھا و حارسھا و عاصرھا، وشاربھا وساقیھا و حاملھا، والمحمول لہ و بایعھا ومشتریھا و آکل ثمنھا (الکافی ۶؍۴۲۹)
وہ دس افراد یہ ہیں: اس کی زراعت کرنے والا، اس کی حفاظت کرنے والا، اس کو کشید کرنے والا، اس کو پینے والا، اس کو پلانے والا، اس کو حمل و نقل کرنے والا، اس کو وصول کرنے والا، اس کو فروخت کرنے والا، اس کو خریدنے والا اور اس کی قیمت کھانے والا۔
جس شخص میں بھی یہ خصائل پائے جائیں وہ اس لعنت کا مستوجب قرار پاتا ہے۔
۴۲۔تہمت لگانے کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی نے سورۃ نور آیت نمبر۲۳ میں فرمایا:
ان الذین یرمون المحصنات الغافلات المؤمنات لعنوا فی الدنیا و الآخرۃ ولھم عذاب عظیم
جو لوگ بے خبرپاک دامن مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔
۴۳۔ اصحاب کوعلم تھا کہ فاطمہ کون ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی منزلت و عظمت اور فضائل کے بارے میں بہت سے فرامین سن چکے تھے۔
چنانچہ فرمایا:
تشریح کلمات
الفاطمۃسیدۃ نساء العالمین و سیدۃ نسآء اہل الجنۃ ۔ فاطمۃ بضعۃ منی من اغضبہا اغضبنی (صحیح بخاری ج۱ ص ۵۲۶ ۔۵۳۲ طبع ہاشمی میرٹھ)
فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
انما فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما آذاھا (صحیح مسلم ج۲ صفحہ ۲۹۰ طبع نول کشور)
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو چیز فاطمہ کو اذیت دے اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے۔
فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما اذاہا و ینصبنی ما انصبہا ھذا حدیث حسن صحیح (سنن ترمذی ج۲ صفحہ۲۲۹ طبع دیوبند)
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس چیزنے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ جس نے فاطمہ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۴۴۔امام حاکم نے مستدرک علیٰ الصحیحین جلد ۳ صفحہ ۱۶۰ طبع حیدر آباد دکن میں حضرت عائشہ ؓسے روایت نقل کی ہے :
ما رأیت احد کان اصدق لھجۃ منھا الا ان یکون الذی ولدھا
میں نے فاطمہ سے راست گو کسی کو نہیں دیکھا۔ ہاں صرف ان کے والد کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔
امام حاکم نے اس حدیث کے ذیل میں اس پر صحت کا حکم یوں لگایا ہے:
تشریح کلمات
ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخر جاہ
یہ حدیث مسلم کی شرط پر بالکل صحیح ہے۔
(المستدرک للحاکم ج ۳ص۱۶۱ طبع دکن)
۴۵۔ اس آیت مبارکہ کے ذریعے سیدۃ کونین سلام اللہ علیھا یہ بتانا چاہتی ہیں کہ میں اس رسولؐ کی بیٹی ہوں جسے تمہیں تکلیف میں دیکھنا شاق گزرتا تھا۔ آج اس نبی کی بیٹی تکلیف میں ہے لیکن تمہیں اس کی پروا نہیں۔ وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں تھے اور مومنین کے لئے نہایت شفیق و مہربان تھے۔ لیکن آج اس نبیؐ بیٹی کا کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا۔
تشریح کلمات
۴۶۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو نذیر و بشیر بناکر بھیجا یعنی تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا۔ ان دونوں میں سے تنبیہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ تنبیہ کا مقصد خطرے سے بچانا ہے۔ خطرات سے بچنے کے بعد بشارت کی نوبت آتی ہے اس لئے فرمایا:
وقل انی انا النذیرالمبین (سورہ حجرآیت ۸۹)
کہدیجئے: میں واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔
واوحی الی ہذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (سورہ انعام آیت ۱۹)
یہ قرآن بذریعہ وحی مجھ پر نازل کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمھاری تنبیہ کروں اور اس کی بھی جس تک یہ قرآن پہنچے۔
تشریح کلمات
تفری، الَفْ:
۴۷۔یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے اپنی زبان گوہر افشاں سے دنیائے انسانیت کے لئے دستور حیات اور آئین زندگی بیان فرمائے جس سے انسانیت بلوغت کے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ آپ نے دنیا کو تہذیب سکھائی اور تمدن دیا۔
۴۸۔وہ زہد و تقوی کی پیکر ہستیاں جو دنیا کی تمام آلائشوں سے بے نیاز تھیں اور اکثر اوقات فاقے میں رہتی تھیں۔ وہ کون ہیں وہ صرف اور صرف اہل بیت اطہار ؑکے افراد ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اہلبیتؑ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہم دعائم الاسلام وولائج الاعتصام بہم عاد الحق فی نصابہ و انزاح الباطل عن مقامہ و انقطع لسانہ عن منبتہ (نہج البلاغۃ خطبہ نمبر۲۳۶مطبوعہ مصر)
وہ اسلام کے ستون اور نجات کا مرکز ہیں ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔
تشریح کلمات
۴۹۔ چنانچہ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
والدنیا کاسفۃ النور ظاہرۃ الغرور علی حین اصفرار من ورقہا و ایاس من ثمرھا و اغورار من مائھا قد درست منار الہدی وظہرت اعلام الردی فہی متجہمۃ لا ھلھا عابسۃ فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنۃ و طعامہا الجیفۃ وشعارہا الخوف و دثارھا السیف (نہج البلاغہ ج ۱ خطبہ نمبر ۸۷)۔
رسالتمابؐ جب مبعوث ہوئے تو اس وقت دنیا بے رونق و بے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں اس وقت اس کے پتوں میں زروی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے ناامیدی تھی۔ پانی زمین میں تہ نشین ہو گیا تھا، ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے۔ ہلاکت کے پرچم کھلے ہوئے تھے اس کا پھول فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار تھی، اندر کا لباس خوف باہر کا پہناوا تلوار تھا۔‘‘
تشریح کلمات
قوت سے یعنی غذا ۔
۵۰۔اس بات کو مولائے متقیان حضرت علی ؑ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
ان اللّہ بعث محمداً صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نذیراً للعالمین و امیناً علی التنزیل و انتم معشر العرب علی شر دین وفی شردار منیخون بین حجارۃ خشن و حیات صم، تشربون الکدر و تأکلون الجشب وتسفکون دمائکم وتقطعون ارحامکم (نہج البلاغۃ خطبہ۲۶طبع مصر)
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام جہانوں کو تنبیہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب !اس وقت تم بد ترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے۔ کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود باش رکھتے تھے۔ گدلا پانی پیتے تھے اور بد ترین غذا کھاتے تھے۔ اپنا خون بہایا کرتے تھے اور قطع رحمی کرتے تھے۔
۵۱۔اشارہ سورہ انفال کی آیت نمبر۲۶ کی طرف ہے، جس میں فرمایا:
واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون ان یتخطفکم الناس فآواکم وایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون۔
وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ کہیں لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں تو اللہ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچا دی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔
تشریح کلمات
۵۲۔اس سلسلہ میں خود حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی تنکص فیھا الابطال وتتأخر فیھا الاقدام (نہج البلاغہ خطبہ۱۹۵)
میں نے پیغمبرؐ کی مدد ان موقعوں پر کی جن موقعوں پر بہادر بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔
علامہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغۃ میں جنگ احد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب زخمی ہو گئے تو لوگوں نے کہا: محمدؐ شہید ہو گئے۔ اس وقت مشرکین کے ایک لشکر نے دیکھا کہ پیغمبرؐ ابھی زندہ ہیں چنانچہ وہ حملہ آور ہوئے۔ رسول ؐخدا نے فرمایا: اے علی اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر پر حملہ کیا اور اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اسی طرح دوسرے اور تیسرے لشکر نے پھر رسول ؐ اللہ پر حملہ کیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے علی ؑ! اس لشکر کو مجھ سے دور کرو۔ علی ؑ نے اس لشکر کے سربراہ کو قتل کیا اور دور بھگا دیا۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اس موقع پر جبرئیل نے مجھ سے کہا: علی ؑ کا یہ دفاع حقیقی مواساۃ اور مدد ہے ۔میں نے جبرائیل سے کہا: ایسا کیوں نہ ہو علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ جبرائیل نے کہا: میں آپ دونوں سے ہوں۔‘‘
تشریح کلمات
۵۳۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی ؑ کے جسم اطہر پر صرف احد کی جنگ میں اسی (۸۰) زخم ایسے لگ گئے تھے کہ مرہم زخم کی ایک طرف سے دوسری طرف نکل جاتا تھا۔
۵۴۔ اس سلسلہ میں متعدد احادیث تمام اسلامی مکاتب فکر کی بنیادی کتب میں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ سے فرمایا:
لحمک لحمی ودمک دمی۔ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی۔ علی منی و انا منہ
تشریح کلمات
۵۵۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۴۳ مطبوعہ بیروت میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ؑ کے بارے میں فرمایا:
یا انس اسکب لی وضؤاً فصلی رکعتین ثم قال یا انس یدخل علیک من ہذا الباب امیر المؤمنین و سید المرسلین وقائد الغر المحجلین و خاتم الوصیین
اے انس! وضو کے لئے پانی فراہم کرو۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر فرمایا: اے انس! اس دروازے سے تیرے پاس وہ شخص آئے گا جو مومنوں کا امیر، مسلمانوں کا سردار اور روشن چہرے والوں کے رہنما اور خاتم اوصیاء ہو گا۔
تشریح کلمات
۵۶۔ تاریخ کے ادنی طالب علم پر بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں کن لوگوں نے راہ فرار اختیار کی۔ قرآن کریم نے بھی اس بات کو اپنے صفحات پر اس انداز میں ثبت کیا ہے کہ بھاگنے والوں کے لیے عذر کی گنجائش باقی نہ رہے فرمایا:
اذتصعدون ولاتلوون علی احد و الرسول یدعوکم فی اخراکم ( سورہ آل عمران آیت۱۵۳)
جب تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے حالانکہ رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔
اس آیت میں والرسول یدعوکم ’’رسول تمہیں پکار رہے تھے‘‘ کا جملہ شاہد ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پکار سن رہے تھے اور بھاگ رہے تھے۔ اگر نہ سنتے تو یدعوکم کی تعبیر اختیار نہ فرماتا۔
یوم حنین کے بارے میں فرمایا:
لقد نصرکم اللّہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (سورہ توبہ آیت۲۵)
بتحقیق اللہ بہت سے مقامات پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تم کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آیا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
تشریح کلمات
۵۷۔صحیح بخاری کتاب الدیات میں حسب ذیل حدیث مروی ہے :
عن ابن عمر انہ سمع النبیؐ یقول: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض
عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : میرے بعد تم کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو۔
ابوذرعہ اپنے دادا حضرت جریر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
انصت الناس ثم قال: لا ترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض
لوگوں کو خاموش کیا پھر فرمایا: میرے بعد کافر مت بنو کہ ایک دوسرے کی گردن مارو
۵۸۔ حضرت علی ؑ نے بھی اس وقت کے حالات پر اسی قسم کا تبصرہ فرمایا ہے:
الا و ان بلیتکم قد عادت کھیئتھا یوم بعث اللّہ نبیکم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم والذی بعثہ بالحق لتبلبلُن بلبلۃ ولتغربلن غربلۃ و لتساطن سوط القدر حتی یعود اسفلکم اعلاکم و اعلاکم اسفلکم ولیسبقن سابقون کانوا قصروا و لیقصرن سباقون کانوا سبقوا (نہج البلاغۃ خطبہ۱۶طبع مصر)
تمہیں جاننا چاہئے کہ تمہارے لیے وہی ابتلا پھر پلٹ آیا ہے جو رسولؐ کی بعثت کے وقت موجود تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور تم اس طرح خلط ملط کیے جاؤ گے جس طرح(چمچے سے) ہنڈیا۔ یہاں تک تمہارے ادنی لوگ اعلیٰ اور اعلیٰ لوگ ادنی ہو جائیں گے، جو پیچھے تھے وہ آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔
تشریح کلمات
تشریح کلمات
۵۹۔ تم نے دوسروں کے اونٹوں پر اپنا نشان لگایا ہے یعنی دوسروں کے حقوق پر بے جا تصرف کیا ہے۔ واضح رہے کہ عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ ہر مالک اپنے اونٹوں پر خاص قسم کی نشانی لگاتے تھے کہ مالک اپنے اونٹ کو پہچان سکے۔
۶۰۔ ہر قوم اور ہر قبیلہ اپنا اپنا گھاٹ مخصوص رکھتے تھے۔ اس فرمان میں یہ اشارہ ہے کہ تم کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے تھا مگر تم نے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی ہے۔
۶۱۔ یعنی عہد رسالتؐ کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔
۶۲۔یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین سے پہلے مسند خلافت پرقبضہ کرنے کے عمل کی سرزنش کی جا رہی ہے۔ خلافت پر قبضہ کرنے والوں کی یہ توجیہ پیش کی کہ ہم نے فتنہ کے خوف سے تدفین رسولؐ پر خلافت کو ترجیح دی۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی جس کی رو سے جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والوں نے یہ عذر تراشا تھا کہ ہم نے جنگ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ رومی عورتوں پر فریفتہ ہو کر کہیں فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ قرآن حکیم نے ان کے جواب میں فرمایا تھا: الا فی الفتنہ سقطوا دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں یعنی یہ عذر تراشی خود سب سے بڑا فتنہ ہے۔
۶۳۔ یعنی امامت و خلافت سے تمہارا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ عام انسان نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ مقام تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ عام مہاجرین اور انصار میں سے کسی کو اس بات میں شک نہ تھا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد خلافت حضرت علی ؑ کی ہو گی۔
(ملاحظہ فرمائیں:موفقیات ص۵۸۰ طبع بغداد)
۶۴۔تمام ادیان میں امامت کا جو مقام و معیار رہا ہے وہ قرآن پاک سے ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نسلوں میں امامت کا سلسلہ قائم رہا تو کس اساس پر رہا۔
تشریح کلمات
۶۵۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا وصال سوموار کے دن ظہر کے وقت ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب، مغیرہ بن شعبہ کے ہمراہ آئے اور نبی کریمؐ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر کہنے لگے: کیا گہری بے ہوشی ہے رسولؐ اللہ کی، مغیرہ نے کہا: حضور کا انتقال ہو گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم فتنہ پرور آدمی ہو۔ رسولؐ اللہ منافقین کے خاتمہ تک زندہ رہیں گے (مسند امام احمد ج۳ ص ۲۱۰)۔ اس وقت حضرت ابوبکر مدینہ سے باہر اپنے گھر ’’المسنح‘‘نامی جگہ پر تھے۔
مشہور مؤرخ ابن جریر طبری نے لکھا ہے : لما قبض النبیؐ کان ابوبکر غائباً فجأبعد ثلاثۃ ایام ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا تو ابوبکر غائب تھے، تین دن بعد آئے‘‘۔(تاریخ طبری ج۳ ص ۱۹۸ طبع مصر)
حضرت ابن ام مکتوم ؓنے حضرت عمر کو یہ آیت پڑھ کر سنائی: وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افأن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم تو حضرت عمر نے اعتنا نہ کی۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر کو مسجد میں لوگوں نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ حضرت عمر اس قدر بولتے رہے کہ منہ سے جھاگ نکلنے لگا (کنزالعمال ج ۲ص۵۳طبعدکن) جب حضرت ابوبکر اپنے گھر مسخ سے آگئے تو انہوں نے بھی اسی آیت کی تلاوت کی جو ابن ام مکتومؓ پہلے سنا چکے تھے۔ اس پر حضرت عمر نے کہا :کیا یہ آیت قرآن میں ہے؟ اور بعد ازاں مان گئے کہ حضور ؐکا انتقال ہو گیا ہے یعنی حضرت ابوبکر کے آنے کے بعد قبول کیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابو بکر کی بیعت لینے کے بعد عام بیعت کے لئے وہ مسجد نبوی آگئے تو حضرت عباس ؓاور حضرت علی ؑابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غسل دینے میں مصروف تھے (العقد الفرید ج ۴ ص ۲۵۸ طبع مطعبۃ ازہریہ مصر)۔چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر جو حضرت ابوبکر کے نواسے اور جناب اسماء بنت ابی بکرؓ کے فرزند ارحمبند ہیں روایت کرتے ہیں کہ ان ابابکر وعمر لم یشہدا دفن النبی ؐ وکانا فی الانصار فدفن قبل ان یرجعا ’’حضرت ابوبکر وعمر دونوں جنازہ اور دفن رسول ؐ میں حاضر نہیں ہوئے اور وہ دونوں انصار میں تھے اور حضورؐ ان دونوں کے واپس ہونے سے پہلے ہی دفن کر دئیے گئے‘‘ (کنز العمال ج۳ص۱۴۰ طبع دکن)۔یہ لوگ رسول اللہؐ کی تدفین کے لیے بھی حاضر نہ ہوئے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ’’ہمیں رسول اللہ ؐ کی تدفین کا علم بدھ کی رات کو ہوا‘‘۔(تاریخ طبری ۲ ص ۴۵۲)۔ اس سلسلہ میں مزید تحقیق کے لیے تاریخی کتب کا مطالعہ ضرور کریں۔
تشریح کلمات
تشریح کلمات
۶۶۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے :’’ دودھ کے برتن سے بالائی لینے کے بہانے پورے دودھ کو پی جانا‘‘۔ یہ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کسی کے لیے بظاہر کام کرتا دکھائی دے لیکن درحقیقت وہ اپنے مفاد میں کام کر رہا ہو۔
۶۷۔ حکومت کو تین گروہوں کی طرف سے مخالفت کا خدشہ تھا۔ انصار، بنی امیہ اور بنی ہاشم۔ مگر سب سے زیادہ بنی ہاشم سے خطرہ تھا۔ اس لیے اہل بیت ؑپر تشدد کیا گیا اور بنی ہاشم میں سے کسی کو بھی کوئی منصب نہیں دیا گیا۔ البتہ انصار اور بنی امیہ کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا اور ان کو بھی اقتدار میں شریک کیا گیا ان کو بڑے کلیدی عہدوں سے نوازا۔ چنانچہ حبر الامت حضرت ابن عباسؓ نے حلب کی گورنری کی درخواست پیش کی لیکن یہ کہ کر رد کر دی گئی کہ اگر ہم بنی ہاشم کو شریک اقتدار کریں تو وہ اسے اپنے مفاد میں استعمال کر سکتے ہیں جبکہ ابو سفیان نے حضرت ابو بکر کی خلافت کے بارے میں کہا تھا: انی لاری عجاجۃ لایطفئہا الا الدم ’’میں اس قسم کا گرد و غبار دیکھ رہا ہوں جس کو صرف خون ہی ختم کر سکتا ہے‘‘ لیکن برسر اقتدار افراد نے ابوسفیان کے بیٹے یزید بن ابی سفیان کو شام کا والی بنا دیا اور اس کے مرنے کے فوراً بعد اس کے بھائی معاویہ کو والی بنا دیا گیا۔
۶۸۔ چونکہ جاہلیت میں لڑکی و ارث نہیں بن سکتی تھی۔
۶۹۔اس تعبیر میں کہ (کیا میں ارث سے محرومی پر مجبور و مغلوب ہوں؟) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ارث سے محرومی کے لئے منطق اور دلیل کی جگہ طاقت استعمال کی گئی ہے۔
۷۰۔اس جملے میں میراث نہ ملنے کو ایک قسم کی اہانت قرار دیا ہے : اے مخاطب! کیا تو اس قابل ہے کہ اپنے باپ کا وارث بن جائے لیکن میں اس قابل نہیں ہوں کہ اپنے والد کی وارث بنوں؟۔
ترکہ ٔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درج ذیل املاک بطور ترکہ چھوڑے:
۱۔ حوائط سبعہ سات احاطے
۲۔ بنی نضیر کا قطعہ ارضی
۳۔ خیبر کے تین قلعے
۴۔ وادی قری کی ایک تہائی حصہ
۵۔ مھزور (مدینہ میں بازار کی ایک جگہ)
۶ ۔ فدک
حوائط سبعہ میں سے چھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وقف فرمایا تھا۔ بنی نضیر کی زمین میں سے کچھ عبدالرحمن ؓبن عوف اور ابی دجانہ ؓوغیرہ کو مرحمت فرمایا تھا۔ خیبر کے کچھ قلعے ازواج کو عنایت فرمایا اور فدک حضرت فاطمۃ الزھراء علیھا السلام کو عنایت فرمائے اس سلسلہ میں مزید کتب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد دیگر افراد سے کوئی چیز واپس نہیں لی گئی۔ صرف فدک کو حضرت زھراء علیھا السلام کے قبضہ سے واپس لیا گیا۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو حاکم وقت سے تین چیزوں کا مطالبہ تھا:
۱۔ ھبہ: حضرت فاطمہؑ نے فرمایا : فدک رسول اللہ ؐنے مجھے ہبہ کر کے دیا۔ جس پر حضرت ابو بکر نے گواہ طلب کیے حضرت فاطمہؑ نے حضرت ام ایمن، رسول کے غلام رباح اور حضرت علی ؑ کو بطور گواہ پیش کیا لیکن یہ گواہ رد کردئے گئے(ملاحظہ ہو فتوح البلدان ج۱ ص۳۴ مطبوعہ مصر)
۲۔ ارث: یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اپنے والد کی میراث کا مطالبہ کیا تو صرف ایک راوی کو روایت کی بنیاد بنا کریہ مطالبہ مسترد کیا گیا اور راوی بھی خود مدعی ہے۔
۳۔سہم ذوالقربیٰ: حضرت فاطمہ ؑ نے اپنے والد کی میراث سے محرومیت کے بعد خمس میں سے سہم ذوالقربی (یعنی رسول کے قرابتداروں کا حصہ) کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ بھی صرف ایک صحابی کی روایت کی بنیاد پر رد کیا گیا۔ حضرت ام ہانی ؓکا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ ؑنے سہم ذوالقربی کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ ذوالقربی کا حصہ میری زندگی میں تو ان کو ملے گا لیکن میری زندگی کے بعد ان کو نہیں ملے گا (ملاخطہ ہو کنز العمال ج۵ ص۳۶۷)
۷۱۔ اس آیت مبارکہ کا اطلاق مالی میراث کو بھی شامل ہے، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ یہاں وراثت سے مراد حکمت و نبوت نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی میں ہی حکمت دے دی گئی تھی چنانچہ ارشاد رب العباد ہے:
و داؤد و سلیمان اذ یحکمٰن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم و کنا لحکمھم شاھدین۔ ففھمنٰھا سلیمان وکلاً آتینا حکماً و علماً (سورۂ انبیاء ۷۸۔۷۹)
اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے مشاہدہ کر رہے تھے۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا ۔
۷۲۔حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی:
انی خفت الموالی من ورائی و کانت امرأتی عاقراً فہب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب.
میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے فضل سے مجھے ایک جانشین عطا فرما جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے۔
ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اپنے رشتہ داروں سے نبوت کی میراث لے جانے کا خوف تو نہیں تھا کیونکہ نبوت ایسی چیز نہیں جسے رشتہ دار ناجائز طور پر لے جائیں۔ بلکہ یہاں یقینا مالی وارثت مراد ہے۔
اس سلسلے میں امام سرخسی کا استنباط قابل توجہ ہے ۔ آپ اپنی معروف فقہی کتاب ’’المبسوط‘‘ جلد ۱۲، صفحہ ۳۶ باب الوقف طبع دار الکتب العلمیہ بیروت میں لکھتے ہیں :
واستدل بعض مشایخنا رحمھم اللّٰہ تعالی بقولہ علیہ الصلوۃ والسلام انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ فقالوا معناہ ما ترکناہ صدقۃ لا یورث ذلک و لیس المراد ان اموال الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا تورث وقد قال اللّہ تعالی {وورث سلیمان داؤد} وقال اللّہ تعالی: {فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب} فحاشا ان یتکلم رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم بخلاف المنزل فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منھم کالعھد من غیرھم.
ہمارے بعض اساتذہ نے وقف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انّا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو مال بعنوان صدقہ (وقف) چھوڑا ہے اس کا ہم سے کوئی وارث نہیں ہوتا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے اموال کے وارث نہیں ہوتے جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا:وورث سلیمان داؤد نیز فرمایا :فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من اٰل یعقوب پس ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف بات کریں۔ حدیث کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف کا ناقابل تنسیخ ہونا ایک خصوصی بات ہے کیونکہ انبیاء کے ’’وعدے‘‘ دوسرے لوگوں کے ’’معاہدے‘‘ کی طرح ہے‘‘۔
۷۳۔اس آیت میں وراثت کا ایک اصول صریح لفظوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خونی رشتہ دار وراثت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس سے پہلے انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم نافذ تھا جو اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔
تشریح کلمات
۷۴۔ اولاد کی میراث کے بارے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے اس صریح ہدایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی اولاد کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔
۷۵۔والدین اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں ارث کے باوجود وصیت کی تاکید ہے چونکہ والدین ہر صورت میں وارث ہیں تو جہاں میراث کے باوجود وصیت کا حکم ہے وہاں اصل میراث سے محروم کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
۷۶۔ جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے میراث کی چار صورتیں بتائی ہیں جن کے مطابق آپ ارث سے محروم رہ سکتی تھیں۔
پہلی صورت :یہ کہ درمیان میں کوئی رشتہ نہ ہو ٫لا رحم بیننا۔
دوسری صورت :یہ کہ قرآنی آیت سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو کہ ان کا کوئی وارث نہیں بن سکتا۔
تیسری صورت : یہ کہ اگر دونوں رشتہ دار ایک دین سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو آپس میں وارث نہ بن سکیں گے۔
چوتھی صورت :یہ کہ میراث کے بارے میں قرآن کے عمومی حکم کی تخصیص پر کوئی دلیل موجود ہو۔
پہلی صورت سب کے لئے واضح ہے کہ جناب فاطمۃ الزھراء ؑ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی ہیں۔
دوسری صورت بھی واضح ہے کہ قرآن میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دے۔
تیسری صورت بھی واضح ہے کہ (باپ اور بیٹی) دونوں ایک ہی دین(اسلام) سے تعلق رکھتے ہیں۔
چوتھی صورت یہ تھی کہ کسی خاص ارث کے بارے میں قرآن کے حکم کی عام دلیل سے تخصیص ہو گئی ہو۔
اس چوتھی صورت کے بارے میں جناب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا یہ استدلال فرماتی ہیں کہ اگر میراث کے قرآنی حکم کی تخصیص ہو گئی ہوتی تو اس کا واحد ماخذ میرے پدر بزرگوار ہیں۔ کیا تم ان سے زیادہ جانتے ہو؟ ان کے بعد میرے ابن عم (علی ابن ابی طالبؑ) قرآنی علوم کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آیا تم ان سے بھی زیادہ جانتے ہو؟ واضح رہے کہ آیت وانذر عشیرتک الاقربین (سورہ شعراء آیت :۲۱۴) ’’اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو تنبیہ کیجئے‘‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فرض عینی ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ان کے متعلقہ احکام بیان فرمائیں۔ یہاں نہ اللہ کا رسول اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں کہ جناب فاطمہ ؑ کو میراث کا حکم تعلیم نہ فرمائیں نہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء ؑ اپنے باپ کے حکم کی نافرمانی کر سکتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان کے باوجود میراث کا مطالبہ کریں۔
یہ بھی واضح رہے کہ میراث رسول ؐ کے بارے میں خود مدعی کے علاوہ کوئی اور شاہد یا راوی موجود نہ تھا چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :
واختلفوا فی میراثہ فما وجدوا عند احد من ذلک علما فقال ابوبکر سمعت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم یقول: انا معشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقۃ (کنز العمال ج۱۴ص۱۳۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں اختلاف ہوا تو اس بارے میں کسی کے پاس کوئی علم نہ تھا صرف ابوبکر نے کہا :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے: ہم انبیاء وارث نہیں بناتے جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔
علاوہ ازیں علامہ ابن ابی الحدید بغدادی نے بھی شرح نہج البلاغہ میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وارث نہ بننے کی روایت صرف حضرت ابوبکر نے بیان کی ہے۔
تشریح کلمات
تشریح کلمات
۷۷۔ سورہ انعام آیت ۶۷۔۷۸۔ سورہ زمر آیت ۴۰۔
۷۹۔ا نصار کے متعلق حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:
ہم واللّہ ربوا الاسلام کما یربی الفلو مع غنائہم بایدیہم السیاط والسنتہم السلاط (نہج البلاغہ ج ۳حکمت نمبر۴۶۵)
خدا کی قسم انہوں نے اپنی خوشحالی سے اسلام کی اس طرح تربیت کی جس طرح ایک سالہ بچھڑے کو پالا پوسا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔
تشریح کلمات
کہتے ہیں ایک شخص کا ایک لاغر بکرا تھا جس کی ناک سے برابر چھینک نکلتی رہتی تھی۔ لوگ اس سے پوچھتے یہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیا کرتا تھا کہ یہ بکرے کی چربی ہے جو اس کی ناک سے بہہ رہی ہے۔ یہاں سے یہ ضرب المثل مشہور ہو گئی کہ ہر اس بات کے لیے جس میں تیزی سے تبدیلی آتی ہے۔
تشریح کلمات
۸۰۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزھراء ؑ کے گھر کو آگ لگانے کی جسارت کی گئی کہ جس دروازے پر پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز صبح آیت تطہیر تلاوت فرمایا کرتے تھے چنانچہ مہاجرین کی چند شخصیات جو حضرت ابو بکر کی بیعت سے راضی نہ تھے وہ حضرت علی ؑ کے ہاں حضرت فاطمہ ؑ کے گھر میں جمع ہو گئے(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶طبع بیروت، تاریخ ابو االفداء ج۱ص۶۴ طبع مصر)حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بھیجا کہ جاکر انہیں حضرت فاطمہ کے گھر سے نکالیں۔ اور ان سے کہا کہ اگر وہ نہ نکلیں تو گھر کو جلا دو، وہ آگ لے کر دروازہ زہراء پر پہنچ گئے کہ گھر کو آگ لگا دیں۔ تو گھر سے حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: کیا تو ہمارا گھر جلانے آیا ہے؟ کہا: ہاں! مگر یہ کہ آپ لوگ بھی داخل ہو جائیں، جس میں امت داخل ہو گئی ہے۔ (انساب الاشراف ج۱ص۵۸۶ طبع بیروت،کنز العمال ج۱ ص۵۸۶، ج۳ ص۱۴۰ طبع دکن، العقد الفرید ج۲ ص۶۴طبع قاہرہ)۔
امام بلاذری کی مشہور کتاب انساب الاشراف میں یہی واقعہ ان الفاظ میں آیا ہوا ہے :
فتلقتہ فاطمۃ علی الباب فقالت فاطمۃ: یا ابن الخطاب اتراک محرقا علی بابی؟ قال:نعم
اے ابن خطاب! کیا تو میرا دروازہ جلانے والا ہے؟ کہا: ہاں۔
تاریخ یعقوبی میں یہ واقعہ ان لفظوں میں بیان ہوا ہے :
فاتوا جماعۃ ھجموا علی الدار ۔۔۔ وکسر سیفہ۔۔ای سیف علی ودخلوا الدار(تاریخ یعقوبی ج۲ص۱۲۶)
ایک جماعت نے گھر پر حملہ کیا اور حضرت علیؑ کی تلوار توڑدی۔ پھر گھر میں داخل ہو گئی۔
امام ابوبکر جوہری اپنی بیش بہا تصنیف ’’ السقیفۃ وفدک‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
وخرجت فاطمۃ تبکی وتصیح فنہنہت من الناس(السقیفۃ وفدک صفحہ ۸۸،۔ شرح ابن ابی الحدید ج۱ص۱۳۴ طبع مصر)
حضرت فاطمہؑ گھر سے روتی ہوئی او ر فریاد کرتی ہوئی نکلیں اور لوگوں سے رک جانے کا مطالبہ کیا۔
حضرت ابو بکر نے اپنی وفات سے تھوڑا پہلے اس سانحہ پر اظہار ندامت کیا تھا خود ان کے الفاظ یہ ہیں:
وددت انی لم اکشف بیت فاطمۃ عن شئی وان کانوا قد اغلقوہ علی الحرب (تاریخ الطبری ج ۲ص۲۱۹، طبع مصر تاریخ الاسلام للذہبی ج۲ صفحہ۲۰۱ قاہرہ، کنز العمال ج۳ صفحہ ۱۳۵ طبع دکن)
کاش کہ میں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کیا ہوتا اگرچہ وہ جنگ کے لئے ہی جمع ہو گئے ہوتے۔
تشریح کلمات
۸۱۔ یہ جملے حرم رسول کی اہانت سے متعلق ہیں۔
تشریح کلمات
۸۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد لوگوں کے الٹے پاؤں پھر جانے سے متعلق قرآن مجید کی پیش گوئی کی طرف اشارہ ہے۔
۸۳۔ یعنی یہ ایک حتمی اور قطعی واقعہ ہے کہ ہر امت اپنے رسول کی وفات کے بعد الٹے پاؤں پھر گئی جیسا کہ سورۃ مریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ذکر کے بعد فرمایا:
اولئک الذین انعم اللّہ علیھم من النبین من ذریۃ آدم وممن حملنا مع نوح ومن ذریۃ ابراہیم و اسرائیل و ممن ہدینا و اجتبینا اذا تتلی علیہم آیات الرحمن خروا سجدا و بکیاۃ فخلف من بعد ہم خلف اضاعوا الصلوۃ و اتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا ۃ (سورہ مریم؍۵۸۔ ۵۹)
یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ اولاد آدم میں سے اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا۔ اور ابراہیم و اسرائیل کی اولاد میں سے۔ اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کی پیروی کی پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔
مندرجہ بالاآیت میں تمام انبیاء علیہم السلام کا اجمالی ذکر آیا ہے۔ چونکہ انبیاء علیہم السلام تین سلسلوں میں آئے ہیں۔ حضرت آدمؑ۔ حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیمؑ۔ ان کے ساتھ دیگر برگزیدہ ہستیوں کا بھی ذکرآیا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا ہے اس جامع ذکر کے بعد یوں استثنا فرما دیا کہ ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے۔
۸۴۔ اِنْقَلَبَ منقلب ہونا الٹے پاؤں پھر جانا کے معنوں میں آتا ہے جس سے مرتد ہونا مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ تحویل قبلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ (سورۃ بقرہ آیت ۱۴۳)
تاکہ پہچان لے کہ رسول کے اتباع کرنے والے کون ہیں اور مرتد ہونے والے کون ہیں۔
دوسری جگہ فرما یا:
یا ایہا الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم (آلعمران؍۱۴۹)
اے ایمان والو ! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تم کو الٹا پھیر دیں گے (مرتد بنا دیں گے)
شیخ رشید رضا مصری نے اس آیہ مجیدہ کے ذیل میں حافظ ابن قیم الجوزیہ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ: یہ آیت رسول اللہ ؐ کی وفات سے پہلے تمہیداً نازل ہوئی ہے اور اس آیت کے ذریعہ جن لوگوں کی تنبیہ کی گئی تھی وہ وفات رسولؐ کے موقع پر ظاہر ہوا چنانچہ جس نے مرتد ہونا تھا وہ الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہو گیا اور سچے لوگ اپنے دین پرقائم رہے۔(تفسیر المنار ج۴ ص۱۶۰ طبع مصر)
بعض کا الٹے پاؤں پھر جانا
حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے خطبے میں مہاجرین کے بارے میں فرمایا کہ’’ تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اس کے امر و نہی میں مخاطب تم ہو اور اللہ کے دین اور وحی کے تم ذمے دار ہو تم اپنے نفسوں پر امین ہو۔ دیگر اقوام کے لئے مبلغ بھی تم ہو‘‘۔
اور انصار کے بارے میں فرمایا:
’’تم ملت کے بازو ہو اسلام کے نگہبان ہو۔ خیر و صلاح میں تم معروف ہو، جنگیں تم نے لڑی ہیں‘‘
لیکن افسوس جناب سیدہ آج مہاجرین و انصار دونوں سے نالاں ہیں۔ یہاں آپ کو عہد رسولؐ اور بعد از رسولؐ ایک نمایاں فرق نظر آئے گا جو مہاجرین و انصار زمانہ رسولؐ میں ان اوصاف کے ساتھ متصف تھے مگر آج پیغمبر کی لخت جگر جناب سیدۃ نسآء العالمین ان سے نالاں ہیں۔ دراصل مسئلہ ’’بعدی‘‘ کا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعدد احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے بعض صحابہ سے خطاب کر کے فرما یا: ما تحدثون بعدی میرے بعد کیا کچھ بدعتیں پیدا کرنے والے ہو۔ حضرت رسول اللہؐ سے کہا جائے گا لا تدری ما احدثوا بعدک۔ آپ کو معلوم نہیں انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں۔ چنانچہ حدیث حوض میں موجود ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر سے بعض لوگوں کو دور کیا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں گے یہ تو میرے اصحاب ہیں! اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی: لا تدری ما احدثوا بعدک آپ کو کیا معلوم انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ کیا ہے۔(۱) صحیح بخاری باب الحوض ج۱ ص۵۷۰ طبع میرٹھ، صحیح مسلم ج۲ صفحہ ۲۴۹ طبع نول کشورسنن ترمذی ابواب القیامۃ ج۲ ص۳۰۶ طبع دیوبند، سنن ابن ماجہ ص۱۴۱ طبع دہلی
امام مالک نے موطا میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں خطاب کر کے صراحت کے ساتھ یہی مطلب بیان فرمایا ہے :
ان رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال لشہداء احد: ھؤلاء اشہد علیہم فقال ابوبکر الصدیق السنا یا رسول اللّہ اخوانہم اسلمنا کما اسلموا وجاہدنا کما جاہدوا فقال رسول اللّہ: بلی، ولکن لا ادری ما تحدثون بعدی فبکی ابوبکر ثم بکی قال ائنا لکائنون بعدک۔ (مؤطا امام مالک کتاب الجہاد ص۲۸۵ طبع دیوبند)(تنویر الحوالک شرح مؤطا امام مالک ج۱ ص۳۰۷ طبع قاہرہ )
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا: ان لوگوں کے متعلق میں گواہی دوں گا (کہ ان کا ایمان صحیح تھا) ابو بکر صدیق نے کہا: یا رسول اللہ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟ ہم بھی اسلام لے آئے ہیں جس طرح یہ اسلام لائے ہیں اور ہم نے بھی جہاد کیا ہے جس طرح انہوں نے جہاد کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ہاں!۔لیکن مجھے کیا معلوم تم میرے بعد کیا کچھ کرو گے۔ اس پر ابو بکر رو پڑے اور کہا: کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ جائیں گے۔‘‘
تشریح کلمات
علامہ جلال الدین سیوطی درج بالا حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ھؤلاء اشہد علیہم‘‘ ای اشہد لہم بالایمان الصحیح والسلامۃ من الذنوب الموبقات ومن التبدیل و التغییر و المنافستہ و نحو ذلک.
نبی اکرم نے جو فرمایا میں ان شہداء کے متعلق گواہی دوں گا یعنی: ان کا ایمان صحیح تھا اور بڑے مہلک گناہوں سے محفوظ تھے اور کسی تبدیلی و تغیراور دنیا کے لالچ سے بھی محفوظ تھے۔ (وفاء الوفاء ج۳ صفحہ ۹۳۱ طبع بیروت)
علامہ سہودی نے بھی اس واقعہ کو بعنوان شہادۃ الرسول لشہداء احد کے ذیل میں لکھا ہے:
ثم وقف رسول اللّہ موقفاً آخر فقال ھؤلاء اصحابی الذین اشہدلہم یوم القیمۃ فقال ابو بکر: فما نحن باصحابک فقال بلی ولکن لا ادری کیف تکونون بعدی انہم خرجوا من الدنیا خماصاً.
پھر رسول اللہ دوسری جگہ (لاشوں کے پاس) کھڑے ہوے اور فرمایا یہ میرے وہ اصحاب ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن گواہی دوں گا۔ پس ابوبکر نے کہا: کیا ہم آپ کے اصحاب نہیں ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں! لیکن میں نہیں جانتا میرے بعد تمہارا کردار کیسے ہو گا۔ یہ لوگ دنیا سے خالی شکم گئے ہیں۔
۸۵۔قیلۃ: قبیلہ اوس اور خزرج کا سلسلٔہ نسب جس نامدار خاتون تک پہنچتا ہے اس کا نام قیلہ تھا۔
تشریح کلمات
۸۶۔زر ارہ حضرت امام محمد باقر ؑ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:
فرزندان قیلہ (انصار) کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی تلواریں اٹھائی جا سکی اور نماز اور جنگ میں صفیں باندھی گئی اور علناً اذان دی گئی اور یا ایہا الذین امنوا پر مشتمل آیتیں نازل ہونا شروع ہو گئی۔ بحار الانوار ۲۲:۳۱۲۔
تشریح کلمات
تشریح کلمات
۸۷۔ سورۂ توبہ؍ ۱۳۔
۸۸۔اسلامی تاریخ میں کچھ حضرات کی دولت کا ذکر آیا ہے سب کو بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے البتہ صرف ایک اشارہ کیا جاتا ہے کہ ایک انصاری نے ترکہ میں جو سونا چھوڑا تھا اس کو کلہاڑے سے کاٹ کر وارثوں میں تقسیم کیا گیا۔
تشریح کلمات
۸۹۔یعنی جس طرح طعام انسانی بدن کا جزو بن کر جسم میں زندگی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اسی طرح اسلامی تعلیمات کو بھی اپنا کر انسان اپنے لیے ارتقا و افتخار حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر طعام کھانے کے بعد جزو بدن بننے سے پہلے قے کیا جائے تو ایسے طعام کے کھانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس طرح اسلام کی جن تعلیمات کو تم نے حاصل کیا تھا اس پر عمل نہ کرنے سے وہ جزو ایمان نہ بن سکے۔
تشریح کلمات
۹۰۔ یعنی: اس کی پیٹھ مجروح ہے اس پر سوار ہونے والا اس زخم کی پیپ سے ملوث ہو سکتا ہے اور پیر کمزور ہے کہ یہ منزل تک نہ پہنچا سکے گا۔ چنانچہ کتب اہل سنت میں یہ حدیث موجود ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔