خواتین سے خطاب
[کیف اصبحت من علتک یا ابنۃ رسول اللّہ. حمدت اللّہ وصلمت علی ایھا فھم قالت:]خواتین مدینہ نے کہا: اے دختر رسولؐ! آپؑ کی علالت کا کیا حال ہے؟حمد خدا اور اپنے پدر بزرگوار پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا:
میں نے اس حال میں صبح کی کہ تمہاری اس دنیا سے بیزار ہوں اور تمہارے مردوں سے متنفر ہوں، جانچنے کے بعد میں نے انہیں دھتکار دیا، امتحان کے بعد مجھے ان سے نفرت ہو گئی۔
کس قدر زشت ہے دھاروں کی کندکاری اور کتنی بری لگتی ہے سنجیدگی کے بعد بازی گری، اور بے سود سنگ کوبی، اور نیزوں کی شکستگی ، اور کتنا قبیح ہے نظریات کا انحراف اور کتنی بری ہیں خواہشات کی لغزشیں، اور انہوں نے اپنے لئے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
اب ناچار میں نے (فدک کی) رسی انہی کی گردن میں ڈال دی اور اس کا بوجھ بھی انہی کی پشت پر لاد دیا اور انہیں اس کے حملوں کی زد میں قرار دے دیا۔ کٹ جائیں ان کی سواری کی ناک اور کوچیں دور ہو رحمت سے یہ ظالم قوم۔افسوس ہو ان پر، یہ لوگ (خلافت کو) کس طرف ہٹا کر لے گئے رسالت کی محکم اساس سے، نبوت و قیادت کی مضبوط بنیادوں سے، نزول جبرائیل کے مقام سے، دین و دنیا کے امور کی عقدہ کشائی کے لئے لائق ترین ہستی سے، آگاہ رہو یہ ایک واضح نقصان ہے۔
ابو الحسن سے ان کو کس بات کا انتقام لینا تھا؟ قسم بخدا انہوں انتقام لیا ان کی باطل شکن تلوار کا، اور راہ خدا میں اپنی جان سے بی پرواہی کا، اور ان کی شدید استقامت کا، اور دشمن پر ان کی کاری ضرب کا، اور راہ خدا میں ان کی شجاعت کا
قسم بخدا اگر لوگ راہ راست سے منحرف ہو جاتے اور اللہ کی واضح حجت کو قبول کرنے سے منہ پھیر لیتے تو (ابو الحسنؑ) انہیں پھر سے راہ حق پر لے آتے اور انہیں راہ راست پر چلا لیتے اور انہیں سبک رفتاری کیساتھ (سوئے منزل) لے جاتے، نہ سواری کی نکیل ٹوٹتی، نہ مسافر کو تھکن محسوس ہوتی اور نہ سوار ہونے والے کو خستگی کا احساس ہوتا،
اور ان کو ایسے خوشگوار صاف چشموں کے کنارے پہنچا دیتے جس کے کنارے چھلکتے ہوں۔ جس کی دونوں اطراف گدلا نہ ہوں صاف ستھری ہوں، پھر انہیں وہاں سے سیراب کر کے واپس کرتے،خلوت و جلوت میں انہیں نصیحتیں کرتے اور اس (بیت المال کی) دولت سے اپنے لیے کوئی استفادہ نہ کرتے نہ اس دنیا سے اپنے لیے کوئی فائدہ اٹھاتے، وہ صرف اس فکر میں رہتے کہ کسی پیاسے کی پیاس بجھا دیں اور کسی بھوکے کا پیٹ بھر دیں۔
اور دنیا کو پتہ چل جاتا بے طمع کون ہے اور لالچی کون ہے سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب انہیں گرفت میں لیا۔ (اعراف، ۹۶)۔ اور ان میں سے جنہوں نے ظلم کیا ہے عنقریب ان پر بھی ان کے برے اعمال کے وبال پڑنے والے ہیں اور وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے (زمر، ۵۱)۔ ذرا ان کی باتیں تو سنو، جتنا جیو گے زمانہ تجھے عجوبے دکھاتا رہے گا۔
اگر تجھے تعجب آتا ہے تو تعجب انگیز ہیں ان کی باتیں، کاش یہ معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے کس دلیل کو سند بنایا ہے اور کس ستون کا سہارا لیا ہے اور کس رسی سے متمسک ہوئے ہیں اور کس ذریت کے خلاف اقدام کیا اور ان کو زک پہنچائی؟ کتنا برا ہے ان کا سرپرست اور ان کے رفیق بھی کتنے برے ہیں اور ظالموں کا بدلہ بھی برا ہوگا۔ ان لوگوں نے اگلے شھپر کی جگہ دم سے کام لیا اور بازؤوں کی جگہ پچھلے حصے سے استفادہ کیا،
ان لوگوں کی ناک رگڑی جائے، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ٹھیک کر رہے ہیں آگاہ رہو! یہ فسادی ہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے۔ افسوس ہے ان پر: کیا جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی راہنمائی نہ کی جائے۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے اقتدار کی اونٹنی حمل سے ہے نتیجہ ظاہر ہونے کا انتظار ہے۔ پھر وہ برتن بھر کر دوہنے جائیں گے (دودھ کی جگہ) تازہ خون اور زہرِ قاتل یہاں پر باطل شعار نقصان اٹھائیں گے
پھر آنے والی نسلوں کو معلوم ہو گا کہ ان کے اسلاف نے جو بنیاد ڈالی تھی اس کا کیا انجام ہوا؟
پھر تم اپنی دنیا سے لطف اٹھاؤ آنے والے فتنوں کے لیے دل کو آمادہ کرو، سنو خوشخبری تیز دھار تلواروں کی اور حد سے تجاوز کرنے والے ظالم کے حملوں کی اور ہمہ گیر فتنہ و فساد کی اور ظالموں کی مطلق العنانی کی۔ وہ تمہارے بیت المال کو بے قیمت بنا دے گا اور تمہاری جمعیت کی نسل کشی کرے گا۔ افسوس تمہارے حال پر،تم کدھر جا رہے ہو تمہارے لیے راہ حق ناپید ہے۔ کیا ہم اللہ کی رحمت پر چلنے پر تمہیں مجبور کر سکتے ہیں جبکہ خود تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ (ہود، ۲۸)