زندگی نامہ

فاطمہ اور علی (علیہما السلام) کی سخت زندگی

ایک زمانہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی زندگی بہت سخت گزر رہی تھی۔ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام ایمن سے فرمایا گویا زہرا (سلام اللہ علیہا) دروازے پر ہے دروازہ کھولو۔ دیکھو کون ہے، جب انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا تو جناب فاطمہ علیہا السلام گھر کے اندر داخل ہوئیں سلام کیا اور باپ کی خدمت میں بیٹھ گئیں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمایا بیٹی فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا کرتی تھیں کیا ہوا ہے؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) ملائکہ کی غذا کیا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمد۔ عرض کیا، بابا جان ہماری غذا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم ایک مہینہ ہونے کو ہے کہ آل محمد (علیہم السلام) کے گھر میں آگ نہیں جلائی گئی۔ میری آنکھوں کانور، آگے آؤ میں تمہیں وہ پانچ کلمات بتلاتا ہوں جو جبرئیل نے مجھے تعلیم دیئے ہیں۔

[”یا رب الاولین وَ الآخرین یا ذالقوة المتین
و یا ارحم المساکین و یا ارحم الراحمین“]

جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے یہ دعا یاد کی اور گھر لوٹ آئیں، حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا کہاں گئی تھیں؟ جواب دیا دنیا طلب کرنے گئی تھی لیکن آخرت کے لئے دستور لے کر آئی ہوں۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا آج سب سے بہتر دن تھا(1)۔

ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی عیادت کی اور آپ کے احوال پوچھے تو آپ نے عرض کیا اباجان بیمار ہوں اور اس سے بدتر یہ کہ گھر میں کوئی چیز موجود نہیں جو کھاؤں، آپ نے فرمایا کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ دنیا کی عورتوں سے بہتر ہو(2)۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک دن جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو آتا ہے وہ فقراء میں تقسیم کردیتے ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا: بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) خبردار میرے بھائی اور چچازاد علی (ع) کوناراحت نہ کرنا کیوں کہ علی (ع) کاغضب میرا غضب ہے اورمیرا غضب خدا کا غضب ہے (3)۔

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ ایک دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر گئے دیکھا کہ حسن(ع) اور حسین(ع) گھر میں موجود نہیں ہیں ان کی حالت پوچھی، جناب فاطمہ (ع) نے عرض کی، آج ہمارے گھر میںکھانے کے لئے کچھ موجود نہ تھا، علی (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمایا کہ میں حسن (ع) و حسین (ع) کو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا کہ یہاں روئیں نہ اور تم سے غذا کا مطالبہ نہ کریں۔ ان کو اٹھایا اور فلاں یہودی کے پاس چلے گئے۔ جناب رسول خدا (ص) علی کی تلاش میں باہر گئے اور انہیں یہودی کے باغ میں ڈول کھینچتے دیکھا اور دیکھا کہ حسن (ع) اور حسین (ع) کھیل میں مشغول ہیں اور ان کے سامنے تھوڑی مقدار خرما کی بھی موجود ہے۔ پیغمبر(ص) نے علی (ع) سے فرمایا کہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسین (ع) کو گھر لوٹانا نہیں چاہتے؟ آپ نے عرض کی یا رسول الل ہ(ص) جب میں گھر سے باہر آیا تھا تو ہمارے گھر کوئی غذا موجود نہ تھی آپ تھوڑ ا توقف کریں تاکہ میں کچھ خرما جناب فاطمہ (ع) کے لئے مہیا کروں۔ میں نے اس یہودی سے ہر ڈول کے کھینچنے پر ایک خرما مقرر کیا ہے۔ جب کچھ خرمے مہیا ہوگئے انہیں آپ نے اپنے دامن میں ڈالا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو اٹھایا اور گھر واپس لوٹ آئے (4)۔

ایک دن پیغمبر ﷺ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) گلوبند پہنے ہوئے ہیں، آپ ﷺ نے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے روگردانی کی اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ کی روگردانی کی علت کو بھانپ گئیں، ہارا تارا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کر دیا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو۔ اس کے بعد ایک غریب آدمی آیا تو آپ نے وہ ہار اس کو عطا کردیا اور فرمایا کہ جو شخص ہمارا خون بہائے اور میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت دے خداوند عالم اس پر غضب کرے گا(5)۔

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں بیٹھی تھی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) کی گردن میں سونے کا ہار دیکھا آپ نے فرمایا فاطمہ (ع) لوگوں کے اس کہنے پر کہ فاطمہ (ع) رسول(ص) کی دختر ہے مغرور نہ ہونا جب کہ تم اس حالت میں ہو کہ ظالموں کا لباس تمہارے جسم پرہو۔ جناب زہراء نے فوراً ہار کو اتارا اور فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا، پیغمبر(ص) آپ کے اس کام سے بہت خوش ہوئے (6)۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ جب سفر کو جاتے تو آخری آدمی کہ جس سے وداع کرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس کا آپ دیدار کرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتیں، آپ ایک سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) کے گھر آئے تو دیکھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کا دست بند ہے اور ایک پردہ بھی لٹکا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑی دیر تک دیکھا اور اپنی عادت کے خلاف جناب زہرا(ع) کے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگین ہوئیں اوراس واقعہ کی علت سمجھ گئیں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کے ہاتھ سے دست بند بھی اتارا، اور یہ کسی ذریعہ سے جناب رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کردیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور آپ کو نوازش دی اور دس بند کو مسجد میں حوفقراء رہتے تھے ان میں تقسیم کردیا اور پردے کے ٹکڑے کر کے مختلف برہنہ انسانوں کودیئے تا کہ وہ ستر عورت کرسکیں اس کے بعد جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت کرے اور اسے بہشتی لباس پہنائے اور بہشتی زینت اسے عطا کرے(7)۔

عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشریف لے آئیں۔ جب رسول خدا کی نگاہ آپ کے چہرے پر پڑی جو بھوک سے زرد ہوچکا تھا اور اس پر خون کے موجود ہونے کے آثار نہیں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلایا اور اپنا دست مبارک جناب فاطمہ (ع) کے سینے پر رکھا اور فرمایا اے وہ خدا جو بھوکوں کو سیر کرتا ہے اور ضعیفوں کو بلند کرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد (ص) کی دختر کو بھوکا نہ رکھ۔ عمران کہتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی دعا کی برکت سے جناب فاطمہ (ع) کے چہرے کی زردی ختم ہوگئی، اور آپ کے چہرے پرخون دوڑے کے آثار پیدا ہو گئے۔ (8)

[1] بحار الانوار، ج 43 ص 152۔
[2] در رالسمطین، ص 179۔
[3] کشف الغمہ، ج 2 ص 99۔
[4] بحار الانوار، ج 43 ص 83۔
[5] بحار الانوار، ج 43 ص 152۔
[6] نظم در رالسمطین ص 179۔
[7] بحار الانوار، ج 43 ص 83۔
[8] نظم در رالسمطین، ص 191۔


فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button