منبع
نام کتاب: فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) اسلام کی مثالی خاتون
مولف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی قدس سرہ
مترجم: اختر عباس
کتابت: صغیر حسن خاں ہندی
انتساب
پروردگارا! تیرے سوا شہید کے حقیقی مرتبے سے کوئی واقف نہیں کہ انہوں نے اپنی ستی کو تیری راہ میں قربان کردیا، ان کا انسانیت پر عظیم احسان ہے کہ جس کا صحیح عوض تو ہی دے سکتا ہے۔
خداوندا! اگر اس معمولی کوشش کا تیرے نزدیک کوئی ثواب ہو تو میں اسے اسلام کے پاکیزہ شہداء اور بالاخص ایران کے انقلاب اسلامی کے شہداء اور انقلاب کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ العظمی نائب امام زمان آقا خمینی کے ایثار گر رفقا کو ہدیہ کرتا ہوں اور یہ معمولی ہدیہ پیش کرتے ہوئے امیدوار ہوں کہ وہ پروردگار کے سامنے نگاہ لطف کریں گے، معذرت خواہ۔
مولّف
مترجم کی تمنا بھی وہی ہے جو کہ مولّف کی ہے۔
مترجم
پیش لفظ
جن لوگوں کو تاریخ سے لگاؤ رہا ہے اور جنہوں نے اپنی عمر کا کچھ حصّہ مردوں اور مشہور عورتوں کے حالات زندگی کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں ان کے مختلف اغراض ہوں۔
بعض لوگوں کی تاریخی کتابوں کے مطالعے سے غرض وقت کا کاٹنا ہوتا ہے اور وہ فراغت کا وقت تاریخی کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتے ہیں وہ تاریخ اس غرض سے پڑھتے ہیں کہ وقت گزاری کے ساتھ تعجب آور اور جاذب نظر کہانیاں یادکریں اور پھر انہیں دوستوں کی محفل میں آب و تاب سے بیان کریں لیکن ایک گروہ کی غرض تاریخ کے مطالعے سے اس سے بالاتر اور قیمتی ہوا کرتی ہے۔ وہ بزرگوں کے حالات کا اس غرض سے مطالعہ کرتے ہیں کہ اس سے زندگی کا درس حاصل کریں، وہ تاریخ میں ان کی عظمت اور کامیابی کا راز معلوم کرتے ہیں تا کہ ان کے اعمال اور افعال کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قرار دیں اسی طرح قوموں کی اور افراد کی شکست اور انحطاط کے عوامل و اسباب معلوم کرتے ہیں تا کہ خود ان میں گرفتار نہ ہوں اور اپنے معاشرے کو اس سے محفوظ رکھیں، اسی طرح جو عظیم پیغمبروں کے مفصل حالات اور آئمہ اطہار(ع) اور دوسرے دینی افراد کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں دو قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک گروہ کا مقصد سوائے وقت گزاری اور مشغول رہنے کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ پیغمبروں اور اماموں کے مناقب اس لئے پڑھتے ہیں کہ تعجب اور قصّے حفظ کریں اور ان کا مجالس میں تذکرہ اور ساتھ ساتھ وقت بھی کٹتا جائے وہ عجیب و غریب واقعات کے پڑھنے سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور تذکرہ اہل بیت کے مراثی اور فضائل کے سننے کے ثواب پرہی قناعت کرتے ہیں۔
لیکن دوسرا گروہ ایک ایسے انسانوں کا ہے جو اللہ تعالی کی برگزیدہ ہستیوں کے حالات کا مطالعہ اس غرض کے لئے کرتے ہیں تا کہ ان کی عظمت اور محبوبیت کے راز کو معلوم کریں اور ان کی زندگی اور روش کے راستے ”جو در حقیقت دین کا صراط مستقیم ہے” حاصل کریں اور ان کے اعمال اور کردار سے زندگی کا درس حاصل کریں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ اکثر لوگ جو آئمہ علیہم السلام کی تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
غالباً پیغمبروں اور آئمہ اطہار کے مناقب کی کتابیں تعجب خیز بلکہ بسا اوقات مبالغہ آمیز واقعات سے مملو پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان کی اجتماعی اور سیاسی اور اخلاقی زندگی کو اور ان کی رفتار اور کردار اور گفتار کو بطور اختصار بیان کردیا جاتا ہے، ہر ایک مسلمان نے پیغمبر اور ہر ایک امام کی کئی اور تعجب انگیز داستانیں تو یاد کر رکھی ہوں گی لیکن ان کی اجتماعی زندگی اور ان کے انفرادی اعمال و کردار اور ان کا ظالموں اور اسلام دشمن حکومت کے برتاؤ سے مطلع تک نہ ہوں گے۔
اس کتاب کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت زہرا علیہا السلام کی زندگی کے دوسرے پہلو کی تحقیق کی جائے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا جائے اسی وجہ سے اگر بعض مناقب یا قصے یہاں ذکر نہیں کئے گئے تو اس پر اعتراض نہ کیا جائے، کیوں کہ اصلی غرض یہ ہے کہ آنحضرت کی شخصیت کو زندگی اور اخلاق اور رفتار کے لحاظ سے واضح کیا جائے۔
افسوس ہوتا ہے کہ اس بزرگوار کی زندگی اس قدر مبہم رکھی گئی ہے کہ جس کا ذکر اسلام کے ابتدائی مدارک میں بہت کم ملتا ہے۔ آپ کی زندگی کو ابہام میں رکھنے کی کئی ایک وجوہ ہیں۔
پہلی وجہ: آپ کی زندگی مختصر تھی اور اٹھارہ سال سے متجاوز نہ تھی آپ کی آدھی زندگی بلوغ سے پہلے کی بہت زیادہ مورد توجہ قرار نہیں پائی ، بلوغ سے موت تک کا فاصلہ بہت زیادہ نہ تھا۔
دوسری وجہ: چونکہ آپ کا تعلق صنف نازک سے تھا اور آپ کی اکثر زندگی گھر کی چہار دیواری کے اندر بیت کئی لہذا بہت تھوڑے لوگ تھے جو آپ کی داخل زندگی کے صحیح طور پر واقف تھے۔
تیسری وجہ: اس زمانے کے لوگوں کے افکار اتنے بلند نہ تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی دختر جو اسلام کی مثالی خاتون تھی کی قدر و قیمت کے اتنے قائل ہوتے کہ ان کی زندگی کے جزئیات کو محفوظ کر لینے کو اہمیت دیتے۔
بہرحال گرچہ آپ کی زندگی کے جزئیات کو کامل طور پر اور آپ کے رفتار و کردار پر جو اسلام کی خاتون کا نمونہ تھے، مکمل طور پر محفوظ نہیں کیا گیا لیکن ہم نے اس مقدار پر جو اس وقت تاریخ میں موجود ہیں ان سے آپ کی شخصیت کا تجزیہ کر کے بیان کیا ہے۔ اسی لئے بعض اوقات مجبور ہوکر بعض معمولی تاریخ نویسوں کے حوالے اور نقل پر اکتفا کر کے نتیجہ اخذ کیا ہے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا ہے۔
مثالی خاتون
اسلام نے عورتوں کے حقوق اور ترقی کے لئے خاص احکام اور قوانین وضع کئے ہیں ایک دستور ہے کہ جس سے اسلام کی شائستہ خاتون اور اس کی اسلامی تربیت کے آثار اور نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے یہ ہے کہ صدر اسلام کی ان خاتون کی زندگی کو کامل طور پر معلوم کیا جائے کہ جن کی تربیت وحی کے مالک نے کی ہو اور ان کی زندگی کے تمام جزئیات کا دقیق نظر سے مطالعہ کیا جائے۔
حضرت زہراء (ع) تمام اسلامی خواتین میں درجہ اول پر فائز ہیں کیونکہ صرف یہی وہ ایک خاتون ہیں کہ جن کا باپ معصوم ہے اور شوہر معصوم اور خود بھی معصوم ہیں آپ کی زندگی اور تربیت کا ماحول عصمت و طہارت کا ماحول تھا، آپ(ع) کا عہد طفلی اس ذات کے زیر سایہ گزرا جس کی تربیت بلاواسطہ پروردگار عالم نے کی تھی۔
امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کا زمانہ اسلام کی دوسری عظیم شخصیت یعنی علی بن ابی طالب علیہ السلام کے گھر میں گزارا اسی زمانے میں آپ نے دو معصوم ”امام حسن اور امام حسین علیہم السلام” کی تربیت فرمائی اور دو جرات مند و شیر دل اور فداکار بیٹیوں جناب زینب اور جناب ام کلثوم کو اسلامی معاشرہ کے سپرد کیا۔ ایسے گھر میں واضح طور سے احکام اسلامی اور تہذیب اسلامی کی رواج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں اسلام کی پاکیزہ اور مثالی خاتون کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔
ہماری روش:
لکھنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک گروہ ہے کہ جو ان مطالب کو معتبر اور پر ارزش شمار کرتا ہے جو اہلسنت کی کتابوں اور مدارک میں موجود ہوں اور ان مطالب کو کہ جو صرف شیعوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہوں نقل کرنے سے بالکل پرہیز کرتا ہے بلکہ ان کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ایک گروہ، وہ ہے جو صرف ان مطالب کو صحیح اور معتبر قرار دیتا ہے جو شیعوں کی کتابوں میں موجود ہوں اور ان مطالب کے نقل کرنے سے گریز کرتا ہے جو صرف اہل سنت کی کتابوں میں پائے جاتے ہوں۔
لیکن ہماری نگاہ میں دونوں افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں۔ بہت سے حقائق کو نظرانداز کرجاتے ہیں، چونکہ وہ صرف اہلسنت کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، ایسے حقائق بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں جو شیعوں کی کتابوں میں موجود نہیں ہوتے اور شیعوں کی کتابوں میں ایسے حقائق بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں جو اہلسنت کی کتابوں میں موجود نہیں ہوتے، شیعوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور بہت سے مطالب کو آئمہ طاہرین(ع) اور پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) سے چونکہ یہی حضرات علم کے لئے مرجع بتلائے گئے ہیں” نقل کیا ہے۔
زمانہ کے لحاظ سے شیعہ مولف سنّی مؤلفین سے مقدم ہیں یہ انصاف سے دور نظر آتا ہے کہ بعض سنّی مؤلفین، شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے قطع نظر کرتے ہوئے ان مطالب کے نقل سے گریز کریں جو سنّی کتابوں اور ماخذ میں نہ پائے جاتے ہوں یہ حضرات حد سے زیادہ اہلسنت کی کتابوں کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں۔ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کتابوں کے تمام لکھنے والے حقیقت کے عاشق اور ہر قسم کے تعصب سے خالی ہیں اور مبراء تھے اور انہوں نے تمام حقائق اور واقعات کو لکھ ہی دیا ہے، جب ان کتابوں میں کوئی مطلب نہ پایا جاتا ہو تو وہ لازماً مطلب بے بنیاد ہوگا حالانکہ ایسی سوچ صحیح نہیں ہے کیونکہ جو شخص بھی غیر جانبدار ہو کر اہلسنت کی کتابوں اور مدارک کا وقت سے مطالعہ کرے بلکہ ایک ہی کتاب کی متعدد طباعت دیکھ لے تو اس کا یہ حسن ظن اور خوشبینی بے بنیاد نظر آئے گا۔ اور اس طرح نظر نہیں آئے گا کہ تمام لکھنے والے تعصب اور خود غرضی سے خالی تھے۔
بنابراین، ہم نے اس کتاب میں اہل سنت کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے بھی، بعض ایسے مطالب کہ جن کے نقل کرنے سے سنی مؤلفین نے احتراز کیا ے یابطور اجمال اور اشارہ کے نقل کیا ہے ہم نے انہیں شیعوں کی کتابوں اور مدارک سے نقل کیا ہے۔
ابراہیم امینی