یہ حقیقت ناقابل انکار تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ عصمت و طہارت کی مرکز و محور اور وماینطق عن الہوی سے متصف رسول ؐ کی پروردہ حضرت فاطمۃ الزھراء ؑنے بھر پور انداز میں مسئلہ فدک کے اصل حقائق سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا، آپ نے اس معرکۃ الآراء تاریخی خطبے میں اللہ تعالی ٰ کی حمد و ثناء، نظریہ توحید، آقائے دو جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اور بعثت کے اغراض ومقاصد، امت اسلامیہ کی ذمہ داریاں اور نظریہ امامت و خلافت، قرآن مجید کی اہمیت وافادیت اور اس کی بالا دستی، شریعت محمدیہ کے احکام اور ان کا فلسفہ، اپنے شوہر نامدار حیدر کرار ؑکی جانفشانیوں کا تذکرہ اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے وقت کے حکمران، مہاجرین وانصار اور خواتین کے سامنے احتجاج فرمایا ہے ۔ تاریخ کے مختلف راویوں نے متعدد اسناد سے یہ تاریخ ساز خطبہ نقل کیا ہے اگر راویان اور حفاظ حدیث میں سے جس کسی سے محبت اہل بیتؑ کی خوشبو آتی تو ارباب اقتدار کی جانب سے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور انہیں مطعون ومجروح کرنے اور درجہ وثاقت سے گرانے کی ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لایا جاتا۔ حکمرانوں کے جبر و تشدد اور ان کی ہمنوا اکثریت کے شدید ردعمل کا خوف ہر وقت ان پر طاری رہتا تھا۔ موت کی تلوار ان کے سروں پر ہمہ وقت لٹکی رہتی تھی حکمران اور ان کے ہم نظریہ افراد اہل بیت ؑ کے حق میں کوئی بات سننے کی تاب نہ رکھتے تھے مگر اس کے باوجود خانوادہ رسالتؐ کی عظمت و رفعت کے متعلق احادیث و روایات، ان سے مروی خطبے اور ارشادات سینہ بہ سینہ چلے آتے رہے اور اس دوران جب بھی کبھی راویان حدیث کو وعظ یا تحریر کے ذریعے بیان کا موقع ملا تو انہوں نے برملا اظہار کر دیاحتی کہ مخالف طبقہ کے سنجیدہ افراد بھی ان حقائق کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کے بعد ان پر کیا گزرتی؟
اس کی صرف ایک ادنیٰ سی مثال ذیل میں بیان کی جا رہی ہے جسے علامہ ذہبی نے رقم کیا ہے:
محدثین اہلسنت میں سے تیسری صدی کے ایک بہت بڑے بلند پایہ حافظ حدیث اور امام دارقطنی ایسے ائمہ حدیث کے استاد محدث محمد عبداللہ بن محمد بن عثمان الواسطی نے ایک موقع پر اہل واسط کو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ’’حدیث طیر‘‘(۱) حفظ اور املا کرائی جسے ان کی طبیعتیں(بغض علیؑ کی بنا پر) برداشت نہ کر سکیں اس وجہ سے فوراً سب لوگ ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ان کو مجلس درس سے اٹھا دیا اور ان کی جگہ کو پانی سے دھویا۔ محدث صاحب اس تکلیف دہ عمل سے کبیدہ خاطر ہو کر اپنے گھر میں ہی گوشہ نشیں ہوگئے اور اس کے بعد پھر کسی واسطی کو حدیث نہیں پڑھائی اہل واسط میں ان کی روایت کردہ احادیث کی کمی کی وجہ یہی ہے۔
(ملاحظہ ہو:تذکرۃ الحفاظ للذہبی جلد۳ صفحہ ۹۶۶، سیر اعلام النبلاء جلد۱۶ صفحہ ۳۵۲)
۱؎ ۔ حدیث طیریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللھم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی ھذا الطیر فجاء علی فاکل معہ’’ اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو تجھے اپنی مخلوق سے سب سے زیادہ محبوب ہے وہ میرے ساتھ یہ (بھنا ہوا) پرندہ (کا گوشت)کھائے پس آپ ؐ کے پاس حضرت علی ؑ تشریف لائے اور مل کر کھایا‘‘۔ (تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۴۵ صفحہ ۲۷۸، المعجم الکبیر طبرانی ج ۷ صفحہ ۹۵، مجمع الزوائد ج ۹ صفحہ ۱۲۶) ۔ اہل سنت کے مستند اور جید علماء نے اس حدیث کی بڑے شد و مد سے توثیق کی ہے جیسا کہ علامہ ہیثمی نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے: و رجال الطبرانی رجال الصحیح غیر فطر بن خلیفۃ و ھو ثقۃ امام حاکم نے کہا ہے : ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ (مستدرک علی الصحیحین ج ۳ صفحہ ۱۳۰) ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں: واما حدیث الطیرفلہ طرق کثیرۃ جدا قد افردتھا المصنف و مجموعھا ھو یوجب ان یکون الحدیث لہ اصل’’ حدیث طیر بہت سی سندوں سے مروی ہے میں نے ان سب کو ایک الگ کتاب میں جمع کر دیا ہے جن سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس حدیث کی اصل موجود ہے‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ ج ۳ صفحہ ۱۰۴۳ طبع دکن، سیر اعلام النبلاء ج ۱۳ صفحہ ۲۳۳)۔یہ حدیث حضرت علی مرتضی ؑ، سعد بن ابی وقاصؓ، ابو سعید خدری ؓ، ابو رافع ؓ، جابر بن عبدا للہ انصاریؓ، حبشی بن جنادہ السلولیؓ، یعلی بن مرۃ ثقفیؓ، ابن عباسؓ، سفینہ مولی رسول اللہؐ، انس بن مالک ؓ، اور دیگر بہت سے صحابہ کرام ؓسے مروی ہے۔بصرہ شہر میں عثمانیوں کی اکثریت تھی حضرت علی ؑ کو ماننے والے صرف چند لوگ تھے جو نہ ہونے کے برابر تھے چنانچہ اس سلسلے میں حافظ ابن عبدالبر اندلسی نے العقد الفرید جلد۴ صفحہ ۲۶۷ میں تحریر کیا ہے البصرۃ کلہا عثمانیۃ بصرہ تمام تر عثمان کے ماننے والوں کا شہر تھا۔ (جوادی)
علامہ ذہبی کے اس بیان سے ہمارے بیان کردہ نقطۂ نظر کو زیادہ تقویت پہنچتی ہے۔
غور فرمائیے! صرف اموی انحراف پسندی کے تحفظ کے لئے اپنے ہی محدث کو ’’فضیلت علی ؑ‘‘ میں محض ایک حدیث پڑھانے کی پاداش میں ہمیشہ کے لئے کس طرح انہیں گھر کی چار دیواری میں محصور کر دیا، نہ صرف یہ، بلکہ آئندہ کے لئے بھی ان کی بیان کردہ کسی حدیث یا روایت کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ایسے لاکھوں کربناک واقعات آج بھی صفحات تاریخ پر نقش ہیں تاہم یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے مگر بقول عمر خیام ہم یہی عرض کریں گے ؎
تو خون کساں بخوری ماخون رزاں انصاف بدہ کدام خونخوار تریم
بنو امیہ کے ہمنوا اور ان کے نظریہ سے متاثر ہونے والے بے رحم قلمکاروں نے قلم و قرطاس کے ذریعے حضرت سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا پر گزرے ہوئے ناقابل برداشت جاں گداز واقعات کو نظروں سے اوجھل کرنے کی حتی المقدور سعی نافرجام کی ہے لیکن تاریخ آخر تاریخ ہوتی ہے جو امتداد زمانہ کے باوجود ہر دور میں اپنے سینے میں موجود سچائیاں منظر عام پر لاتی رہتی ہے اور جب بھی کوئی شخص مفاد یا تعصب وتنگ نظری کی عینک لگا کر اس کے حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ناقابل تردید حوالوں کے ساتھ اپنا بھر پور دفاع کرتی ہے۔
اگرچہ اس خطبہ کو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اتنے علمائے حدیث و تاریخ نے بڑے وثوق سے درج کیا ہے کہ ان کا مختار ہی سند ہے لیکن اس کے باوجود اس کے راویوں پر علم رجال کی روشنی میں نظر ڈالنا مناسب ہو گا۔ اگر علی سبیل التنزل ایک لمحے کے لیے یہ باور کر لیا جائے کہ اس خطبہ کے کچھ راوی کمزور ہیں تب بھی یہ خطبہ قابل احتجاج و استشہادرہے گا وہ اس لیے کہ جمہور محدثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جب حدیث ضعیف بھی متعدد اسانید سے مروی ہو توچاہیے الگ الگ ہر طریق بجائے خود ضعیف ہو مگر سب مل کر وہ حسن لغیرہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ خطبہ فدک کئی اسانید و طرق کے ساتھ نقل ہوا ہے تو اس قاعدہ کی رو سے اس ضعف ختم ہو جائے گا اور لا محالہ اس کی صحت میں کلام ناممکن ہے۔
مذکورہ خطبے کے متعدد سلسلوں میں سے ایک سلسلہ کے زیر بحث راوی درج ذیل ہیں:
ام المومنین حضرت عائشہؓ المتوفاۃ ۵۸ھ
حضرت عروہ بن زبیر بن عوام مدنی ؓ متوفی ۹۴ھ
جناب صالح بن کیسان مدنی تابعیؒ متوفی ۱۴۶ھ
جناب محمد بن اسحاق بن یسارؒ متوفی ۱۵۱ھ
شرقی بن قطامیؒ متوفی ۲۴۵ ھ
محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادیؒ متوفی ۲۵۰ھ
جناب احمد بن عبید بن ناصح النحویؒ متوفی ۲۷۸ھ
جناب محمد بن عمران المرزبانی ؒمتوفی ۳۸۴ھ
جناب محمد بن احمد الکاتبؒ متوفی ۳۳۶ھ
اس خطبے کو حضرت عائشہ،ؓ حضرت عروہؓ بن زبیر او ر صالح بن کیسانؒ ایسے بہت سے جلیل القدر ائمہ ثقات اور حفاظ کی صحیح اسانید سے روایت کیا ہے لہٰذا اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شک وشبہ کے گنجائش نہیں ہے۔
جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے اس فصیح وبلیغ خطبے کو بڑے بڑے جلیل القدر علماء واہل فن نے اپنی تالیفات میں سند کے ساتھ اور بعض نے اقتباسات کو درج کرنے کی سعادت حاصل کی ہے طوالت واطناب کو ملحوظ خاطر لاتے ہوئے ہم یہاں صرف ایک سند کے رواۃ پر تبصرہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں اگر اس خطبہ کی متعدد اسناد کو زیر بحث لایا جائے تو اس کے لئے باقاعدہ ایک دفتر درکار ہے۔
دنیائے علم میں پانچویں صدی کی ایک نابغہ روز گار شخصیت، علم و ادب کے بحر زخار آیۃ اللہ فی العالمین السید شریف مرتضیٰ علم الہدی ؒالمتوفی ۴۳۶ھ ہیں جو محتاج تعارف نہیں۔ جن کو قدرت نے مبداء فیاضی سے علوم نقلیہ وعقلیہ پر یکساں دسترس اور وسعت نظر ودیعت فرمائی ہے اس بطل جلیل کے علمی تفوق و برتری کا اعتراف اہل سنت کے جید اور نامور علماء نے کیا ہے۔
چنانچہ علامہ شمس الدین الذہبی المتوفی ۷۴۸ھ جو فن رجال میں استقراء تام کے حامل اور ائمہ فنون میں سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں انہوں نے ایک ضخیم کتاب ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ کے نام سے لکھی جو پچیس جلدوں پر مشتمل ہے اس کی جلد ۱۷ صفحہ ۵۸۸تا۵۸۹ طبع بیروت میں سرکار علامہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
العلامۃ الشریف المرتضیٰ۔۔۔من ولد موسی کاظم۔۔۔ وکان من الاذکیاء الاولیاء المتبحرین فی الکلام والا عتزال والادب والشعر۔۔۔
ان کے علاوہ دیگر بہت سے غیر شیعہ علماء نے ان کی عظمت و جلالت اور رفعت علمی کو بڑے شد و مد سے بیان کیا ہے۔
علامہ سید مرتضیٰ علم الہدیٰ ؒنے اس خطبہ کو اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’الشافی فی الامامۃ‘‘ میں اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے لئے یہی کافی ہے کہ علامہ یاقوت حموی شافعی کو یہ لکھنا پڑا:
وہو کتاب لم یصنف مثلہ فی الامامۃ
یہ وہ کتاب ہے جس کی مثل کوئی دوسری کتاب مسئلہ امامت میں نہیں لکھی گئی ۔
(معجم الادباء ج ۱۳ ۱۴۷؎ )
چنانچہ علامہ سید مرتضیٰ علم الہدی ؒ سلسلہ سند بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:
اخبرنا ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی قال حدثنی محمد بن احمد الکاتب قال حدثنا احمد بن عبید بن ناصح النحوی قال حدثنا الزیادی حدثنا شرقی بن قطامی عن محمد بن اسحاق قال حدثنا صالح بن کیسان عن عروۃ عن عائشۃ قالت لما بلغ فاطمۃ علیہاالسلام اجماع ابی بکر منعہا (فدک) لاثت خمارہا علی راسہا واشتملت بجلبابھا واقبلت فی لمۃ من حفدتہا۔۔۔۔۔الخ
’’ہم سے بیان کیا ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی نے اور اس سے بیان کیا محمد بن احمد الکاتب نے اور اس سے بیان کیا احمد بن عبید بن ناصح نحوی نے اور اس سے بیان کیا الزیادی نے اور اس سے بیان کیا شرقی بن قطامی نے اور اس سے بیان کیا محمد بن اسحاق نے اور اس سے بیان کیا صالح بن کیسان نے اور اس سے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر نے اور اس سے بیان کیا حضرت عائشہؓ نے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ نے سنا کہ ابوبکر نے ان کو فدک نہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو آپ نے سر پر مقنعہ ڈالا اور پھر سر سے پاؤں تک چادر اوڑھی او ر کنیزوں کے گروہ میں ابوبکر کے پاس آئیں۔۔۔۔۔‘‘
( ملاحظہ فرمائیے۔ الشافی فی الامامۃ صفحہ۲۳۰ طبع قدیم تہران ۱۳۰۱ھ )
اسی طرح ان کے تلمیذ رشید شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی ؒالمتوفی ۴۶۰ھ نے اس سند کو اپنی بیش بہا تالیف ’’تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۱۳۹ طبع نجف اشرف ۱۳۸۳ھ میں درج کیا ہے۔
سطور بالا میں درج کی گئی سند بالکل صحیح ہے راویوں کا علی الترتیب جائزہ پیش خدمت ہے۔
حضرت عائشہؓ:۔ جناب سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی مرکزی راویہ حضرت عائشہؓ ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں یہ حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی ہیں ان کی والدہ کا نام ام روماں بنت عامر بن عویمر ہے صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ایک بڑے طبقے نے ان سے روایات نقل کیں۔ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان کے دور حکومت ۵۷ھ یا ۵۸ ھ مدینہ منورہ میں وفات پائی۔
عروۃ بن زبیر بن عوام ؓمدنی :۔ مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام کے فرزند تھے ان کی ماں جناب اسماء بنت ابوبکر تھیں آپ حضرت ابوبکر کے نواسے ہیں، آپ کی ولادت کے متعلق علامہ ذہبی خلیفہ بن خیاط کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ولد عروۃ سنۃ ثلاث و عشرین فہذا قول قوی
عروہ ۲۳ ہجری میں پیدا ہوئے یہی قول معتبر اور قوی ہے
( سیراعلام النبلاء جلد ۲ صفحہ ۴۲۲)
ثقۃ فقیہ مشہور من الثانیہ
’’آپ مشہور ثقہ فقیہ تھے اور دوسرے طبقہ کی شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔‘‘
کتب صحاح ستہ میں متعدد احادیث آپ سے مروی ہیں (تقریب التہذیب صفحہ ۲۶۳، الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۱صفحہ۳۹۴)امام احمد بن عبداللہ عجلی نے کہا ہے کہ عروۃ بن الزبیر تابعی ثقۃ کان رجلا صالحاًثقہ تابعی اور نیک متدین شخص تھے حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا: مااجد اعلم من عروۃ بن الزبیر، میں نے عروہ بن زبیر سے بڑا عالم کسی کو نہیں پایا (تاریخ الثقات صفحہ ۳۳۱،سیراعلام النبلا جلد ۲ صفحہ۴۲۵؍۴۳۳، تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ۱۱ صفحہ ۹۲۱) آپ نے اپنے والد او ر حضرت عائشہؓ سے خصوصیت کے ساتھ احادیث حاصل کیں انہوں نے حضرت عائشہ کا پورا علمی ذخیرہ اپنے سینہ میں محفوظ کر لیا تھا حضرت عروہ اس قدر محتاط تھے کہ کوئی مسئلہ محض رائے سے نہ بیان کرتے تھے (تہذیب التہذیب جلد۷ صفحہ ۱۸۳) انہوں نے مدینہ منورہ کے مضافات اپنے علاقے ’’مجاج ‘‘میں ۹۴ ہجری میں انتقال کیا۔
صالح بن کیسان مدنی ؒ:۔ صالح بن کیسان ابوالحارث الغفاری المدنی تابعین کے بڑے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں آپ عمر بن عبدالعزیز اموی کی اولاد میں سے ہیں عروہ بن زبیر اور دیگر بہت سے صحابہ وتابعین سے روایت کرتے ہیں کتب صحاح ستہ اور دوسری کتابوں میں ان سے روایات نقل ہوئیں آپ ثقۃ، ثبت فقیہ اور چوتھے طبقہ کے راوی ہیں (تقریب التہذیب صفحہ ۱۷۴، الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۱ صفحہ ۲۲۱، تذکرۃ الحفاظ جلد ۱ صفحہ ۱۴۸ طبع دکن) حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی شہرہ آفاق کتاب تہذیب التہذیب جلد ۴ صفحہ ۴۰۰ میں لکھتے ہیں:
کان صالحاً ثقۃ۔۔۔۔وقال ابن حبان فی الثقات کان من فقہاء المدینۃ والجامعین للحدیث والفقہ من ذوی الہیئۃ والمروۃ۔۔۔۔حافظا اماماً کثیر الحدیث ثقۃ حجۃ
آپ دیندار ثقہ تھے اور ابن حبان نے ثقات میں کہا ہے کہ یہ فقہا، مدینہ اور حدیث وفقہ کے جامعین میں سے تھے آپ حافظ، امام، کثیر الحدیث اور قابل وثوق حجت تھے۔
حافظ احمد عجلی نے تاریخ الثقات صفحہ ۲۲۶ پر ان کو ثقہ کہا ہے پھر اسی کتاب کے فاضل محشی ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی نے حاشیہ نمبر۱۰ پر’’ متفق علی توثیقہ ‘‘ کہہ کر ان کی ثقاہت پر تمام علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔ آپ ۱۴۶ہجری میں واصل بحق ہوئے۔
محمد بن اسحاق ؒ:۔ محمد بن اسحاق بن یسار اہلسنت کے جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ اور قابل اعتماد ہے چنانچہ امام کمال الدین محمد بن عبدالاحد المعروف ابن ہمام حنفی تحریر کرتے ہیں :
امام محمد بن اسحاق حدیث کے بارے میں ایمان والوں کے امیر ہیں اور بڑے بڑے علماء مثل امام ثوری، عبداللہ بن مبارک وغیرہ جیسے ان کے شاگرد ہیں امام یحی بن معین، امام احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ اہل سنت نے اس سے روایت لی ہے اور امام بخاری نے ’’جزء القرأۃ خلف الامام‘‘ میں ان کی وثاقت پر اعتماد کیا ہے امام ابن حبان نے بھی ان کا ذکراپنی قابل وثوق رواۃ پر مشتمل کتاب ’’الثقات‘‘ میں کیا ہے (ملاحظہ ہو فتح القدیرجلد۱ صفحہ ۹۰ مطبوعہ کوئٹہ)
اور امام بخاری نے محمد بن اسحاق کی توثیق کو اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر ‘‘جلد۱ صفحہ۴۱ طبع دکن میں بھی مختصر طور پر بیان کر دیا ہے۔ حنفی مسلک کے ترجمان امام جمال الدین زیلغی حنفی نے ابن اسحاق کے متعلق لکھا ہے:
وابن اسحاق الاکثر علی توثیقہ وممن و ثقہ البخاری۔۔۔قال شعبۃ محمد بن اسحاق امیر المومنین فی الحدیث وقال عبداللہ بن مبارک محمد بن اسحاق ثقۃ ثقۃ ثقۃ
ابن اسحاق کو(ائمہ )کی اکثریت نے ثقہ کہا اور توثیق کرنے والوں میں امام بخاری بھی ہیں شعبہ نے کہا کہ محمد بن اسحاق حدیث کے باب میں امیرالمومنین ہیں اور عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ محمد بن اسحاق ثقہ ہے ثقہ ہے ثقہ ہے۔
(نصب الرایہ لاحادیث الہدایہ جلد۱ صفحہ ۱۰۷جلد ۴صفحہ ۸ طبع ڈاھبیل )
اصول حدیث کے ابتدائی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ تعدیل کے الفاظ میں توثیق مقرر، درجہ اول کے الفاظ میں شمار ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ابن حجر العسقلانی تقریب التہذیب صفحہ ۳ پر مراتب تعدیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
من اکدمدحہ اما بافعل کاوثق الناس اوبتکریر الصفۃ لفظاً کثقۃ ثقۃ اومعنی کثقۃ حافظ
’’دوسرے مرتبے میں وہ لوگ ہیں جن کی مدح تاکید کے ساتھ کی گئی ہے افعل التفضیل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہو جیسے ’’اوثق الناس‘‘ یا لفظوں میں صفت کو مکرر کر دیا جائے جیسے ’’ثقۃ ثقۃ‘‘ یا معنوں میں مکرر کر دیا جائے جسیے ثقہ حافظ‘‘
(کذافی، تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین صفحہ۱۵ طبع کویت)
علامہ ذہبی اپنی مشہور عالم تصنیف میزان الاعتدال جلد۳ صفحہ۴۷۵ طبع مصر میں محمد بن اسحاق کے تذکرہ میں مختلف اقوال نقل کرکے تحقیق بسیار اور قیل و قال بے شمار کے بعد آخر میں بطور نتیجہ رقم طراز ہیں:
فالذی یظہر لی ان ابن اسحاق حسن الحدیث صالح الحال صدوق۔۔۔۔۔ وقد استشہد مسلم بخمسۃ احادیث لابن اسحاق ذکرہا فی صحیحہ
’’مجھے جو ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق حسن الحدیث صالح الحال اور صدوق ہے اور بے شک امام مسلم نے اس سے اپنی صحیح مسلم میں پانچ احادیث میں استشہاد کیا ہے‘‘۔
امام محمد بن اسحاق نے ۱۵۱ ہجری میں انتقال کیا ہے۔
مندرجہ بالا اہل سنت کے ائمہ فن اور اکابر احناف کی ان واضح تصریحات سے ثابت ہوا کہ جمہور ائمہ حدیث نے محمد بن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدث قرار دیا ہے۔
حَدَّثَنِی، سَمِعْتُ سے شبہ تدلیس کا ارتفاع:
البتہ بعض فن رجال کے ماہرین نے یہ وضاحت کی ہے کہ محمد بن اسحاق ثقہ ہیں مگر چونکہ مدلس بھی ہیں اس لئے جب وہ ’’عن‘‘ سے روایت کریں گے تو ان کی حدیث ضعیف ہو گی اور جب وہ ’’حدثنی‘‘ یا ’’حدثنا‘‘ اور’’سمعت‘‘ کہہ کر روایت کریں گے تو وہ حدیث صحیح ہو گی۔ جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ اپنے مجموع فتاوی جلد۳۳ صفحہ ۸۵ میں لکھتے ہیں:
وابن اسحاق اذا قال حدثنی فحدیثہ صحیح عند اہل الحدیث
ابن اسحاق اگر حدثنی کہہ کر تصریح کرے تو محدثین کے نزدیک اس کی حدیث صحیح ہے۔
مزید برآں موجودہ زمانہ کے معروف ماہر رجال علامہ ناصرالدین البانی (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے بھی حافظ ابن تیمیہ حرانی کی کتاب ’’الکلم الطیب‘‘ کے حاشیہ صفحہ۴۴ پر اس بات کی وضاحت کر دی ہے۔ علاوہ ازیں طے شدہ قانون یہ ہے کہ ہر ثقہ مدلس راوی کے لیے سماع کی تصریح ضروری ہے ورنہ اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔
لہٰذا جناب فاطمۃ الزہراء ؑ بنت رسول اللہ ؐ کے خطبہ فدک کی حقانیت و صحت پورے طور پر ثابت ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ خطبہ فدک ’’حدثنا صالح بن کیسان‘‘ کہ کر روایت کیا ہے۔ جو اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے۔
شرقی بن قطامیؒ:۔ اس کا اصل نام ولید بن حصین بن جمال بن حبیب بن جابر بن مالک ہے اس کا تعلق مشہور قبیلہ بنی عمرو بن امریٔ القیس سے ہے۔
(ملاحظہ ہو التاریخ الکبیر للامام بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۵۴ رقم ۲۷۱۵ طبع حیدر آباد دکن، تاریخ بغداد جلد۹ صفحہ ۲۷۸ رقم ۴۸۳۷ طبع بیروت)۔
امام بخاری کا اس پر تنقید اور جرح نہ کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ قابل اعتبار اورثقہ راویوں سے ہے۔ جیسا کہ اس سلسلے میں مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
سکوت ابن ابی حاتم او البخاری عن الجرح فی الراوی توثیق لہ
’’ ابن ابی حاتم یا امام بخاری کا راوی پر جرح کرنے سے سکوت اختیارکرنا گویا اس کی توثیق ہے ‘‘۔
(قواعد علوم الحدیث صفحہ ۲۲۳، ۳۵۸ طبع الریاض سعودی عرب)
انہی صفحات کے حاشیہ پر محقق محشی استاد شیخ عبد الفتاح ابو غدہ شاگرد علامہ زاھد الکوثری نے اس بات کی تائید کی ہے۔
علاوہ ازیں اس کے ثقہ اور معتبر ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ امام ابن حبان تمیمی جیسے فن علم حدیث کے امام نے اپنی کتاب الثقات جلد ۳صفحہ ۴۴۰ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت میں اس کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور جس کو امام ابن حبان اپنی ثقات میں بیان کر دیں جہالت وجرح رفع ہو جاتی ہے۔
چنانچہ علامہ انور شاہ محدث کاشمیری نے حافظ ابن عبدالہادی کے حوالے سے لکھا ہے:
ان ابن حبان اذا ادرج احداً فی کتاب الثقات ولم یخرج فیہ احد فہو ثقۃ فالحدیث قوی،
امام ابن حبان تمیمی جب کسی کو ثقات میں ذکر کریں اور اس پر کوئی جرح نہ ہو تو وہ ثقہ ہوتا ہے اس کی حدیث مضبوط ہوتی ہے
(العرف الشذی علی سنن ترمذی صفحہ ۲۱۰ طبع دیوبند) ۔
اور اسی تناظر میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے قواعد فی علوم الحدیث صفحہ۴۶ پر اور شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری نے ابکار المنن صفحہ ۱۳۱ مطبع فاروقی دہلی میں حضرت علامہ انور شاہ محدث کاشمیری کے اس بیان کی بڑے شد ومد سے مزید تائید وتصویب کر دی ہے۔
مذکورہ بالا عبارت سے آشکار ہوا کہ محدثین اہلسنت کے نزدیک ابن حبان کی توثیق معتبر ہے اور صرف ابن حبان کی توثیق سے بھی راوی کی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے۔درج بالا تحقیق سے شرقی بن قطامی کی ثقاہت مزید واضح ہو گئی ہے۔
محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادیؒ:۔ ان کا پورا نام یہ ہے محمد بن زیاد بن عبداللہ الزیادی جیسا کہ علامہ ذہبی ان کے حالات لکھتے ہوئے ابتداء ان الفاظ سے کرتے ہیں :
الامام الحافظ الثقۃ الجلیل ابوعبداللہ محمد بن زیاد بن عبیداللہ ابن الربیع بن زیاد بن ابیہ الزیادی البصری من اولاد امیر العراق زیاد الذی استلحقہ معاویۃ ولد فی حدو دسنۃ ستین ومائۃ ۔۔ حدث عنہ البخاری وابن ماجۃ وابن خزیمہ۔۔و عدد کثیر۔۔۔
’’امام حافظ بہت بڑا ثقہ ابوعبداللہ محمد بن زیاد۔۔ الزیادی بصری یہ زیاد بن ابیہ جسے معاویہ نے اپنا بھائی بنا لیا تھا اور جو عراق کا حکمران تھا کی اولاد سے ہیں اور ۱۶۰ ہجری کی حدود میں پیدا ہوئے۔ ان سے امام بخاری، امام ابن ماجہ اور امام ابن خزیمہ وغیرہ ائمہ کی زیادہ تعداد نے روایات لی ہیں۔‘‘
(سیر اعلام النبلاء جلد ۱۱ صفحہ۱۵۴) یہ امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں
(ملاحظہ ہو: اسامی مشایخ الامام البخاری لابن مندہ اصبہانی صفحہ ۶۷ طبع مکتبۃ الکوثر سعودیہ)۔
حافظ محمد بن طاہر مقدسی المعروف بابن قیسرانی نے صحیح بخاری کے راویوں میں ان کا تذکرہ یوں کیا ہے:
محمد بن زیاد بن عبداللہ بن الربیع بن زیاد سمع محمد بن جعفر عندناروی عنہ البخاری فی الادب۔۔
(الجمع بین رجال الصحیحین جلد ۲صفحہ ۴۵۹ طبع دکن)۔
علامہ ذہبی نے الکاشف جلد۳ صفحہ۳۸ پر اس کے حالات میں تحریر کیا :
۔۔۔ الزیادی بصری صدوق۔۔۔، یہ بصرے کا رہنے والا ہے روایت کے باب میں نہایت سچا ہے۔
مزید برآں سنن ترمذی جلد اول ’’باب المسح علی الخفین‘‘ میں بھی محمد بن زیاد الزیادی سے حدیث نقل کی گئی ہے۔
امام ترمذی نے اس سے مروی حدیث کے ذیل میں کہا ہے:
ہذا حدیث حسن صحیح ’’یہ حدیث حسن صحیح درجہ کی ہے‘‘
یہی حدیث مسند الامام احمد جلد ۴ صفحہ۲۳۹ طبع بیروت میں بھی موجود ہے۔
علاوہ ازیں امام الجرح والتعدیل ابن حبان تمیمی نے اپنی ثقات میں اس کی تصحیح کی ہے۔
ثابت ہوا کہ محمد بن زیاد الزیادی بلا شک وشبہ ثقہ اور انتہائی سچا ہے اس سے مروی روایت قابل قبول ہے لہٰذا خطبہ فدک کی صحت روز روشن کی طرح واضح ولائح ہو گئی ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی کا تقریب التہذیب صفحہ ۳۲۰ میں یہ کہنا کہ ’’صدوق یخطی‘‘ محمد بن زیاد الزیادی سچا ہے خطاء کر جاتا ہے۔ اس کے متعلق جواباً گزارش یہ ہے کہ جب وہ صدوق ہے اور کبھی کبھی اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس سے بیان کردہ روایت میں ضعف پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ سابقہ اوراق میں علامہ ذہبی کا بیان گذر چکا ہے کہ ائمہ حدیث میں سے خطا سے کوئی بھی نہ بچ سکا نیز یہ طے شدہ اصول ہے کہ فلیس من شرط الثقۃ ان لا یغلط ابداً، ’’پس ثقہ راوی کی یہ شرط نہیں کہ اس سے غلطی کا کبھی صدور نہ ہوا ہو‘‘ چونکہ یہ عقلاء کے نزدیک بھی ایک ممتنع اور نہایت محال امر ہے۔
لہٰذا یہ اس کی بیان کردہ روایت کے ضعف اور کمزوری کا باعث ہرگز نہیں بن سکتا بلکہ اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی یہی وجہ ہے امام ترمذی اور ابن حبان تمیمی جیسے ائمہ حدیث نے اس کی اسناد کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
احمد بن عبید بن ناصح النحویؒ:۔ علامہ ذہبی نے ان کا تعارف ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
ابو عصیدۃ الشیخ العالم المحدث ابو جعفر احمد بن عبید بن ناصح بن بلنجر الدیلمی ثم البغدادی الہاشمی۔۔الخ
(ملاحظہ فرمائیں سیر اعلام النبلاء جلد۱۳ صفحہ۱۹۳ طبع بیروت)
یہ جن ائمہ حدیث سے روایت بیان کرتے ہیں وہ کثیر تعداد میں ہیں مگر چند ایک کے نام یہ ہیں حسین بن علوان کلبی، علی بن عاصم، ابوداؤد الطیالسی اور محمد بن زیادالزیادی وغیر ہم ۔
(تاریخ بغداد جلد۴ صفحہ۲۵۹)
علاوہ بریں علامہ ذہبی سیراعلام النبلاء جلد۱۳ صفحہ۱۹۴ پر ان کے متعلق ابن عدی کا قول نقل کیا ہے :
کہ احمد بن عبید بمقام سرمن رائے میں رہائش پذیر تھا اصمعی اور محمد بن مصعب سے مناکیر بیان کرتا تھا اس کے بعد علامہ ذہبی ارقام فرماتے ہیں :قلت قد تابعہ احمد الحوطی قال وابو عصیدۃ مع ہذاکلہ من اہل الصدق، ’’میں (ذہبی کہتا ہوں) کہ احمد حوطی نے اس کی متابعت کی ہے اور کہا اس کے باجود ابو عصیدہ (احمد بن عبید) سچے لوگوں میں سے ہے‘‘۔
بعض لوگوں نے احمد بن عبید پر مبہم قسم کی جرح کی ہے جو ناقابل التفات وغیر مسموع ہے کیونکہ یہ اہل صدق میں سے ہیں پھر بھی بموجب ومن یعری من الخطأ والتصحیف یعنی وہم و خطاء سے کون بچ سکا ہے بعض اوقات انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔
علامہ ذہبی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے چنانچہ فرماتے ہیں :
قلت۔۔۔فأرنی اماما من الکبارسلم من الخطاء والوہم فہذا شعبۃ وہو فی الذروۃ لہ اوہام وکذلک معمر والاوزاعی ومالک رحمۃ اللہ علیہم۔ ۔۔
’’ مجھے بڑے محدثین ائمہ میں سے کوئی ایسا امام دکھاؤ جس سے وہم اور خطاء نہ ہوئی ہو، یہ شعبہ چوٹی کے محدث ہیں ان سے کئی اغلاط ہوئے ہیں اور اس طرح معمر اور اوزاعی ومالک سے اوہام واغلاط سرزد ہوئے ہیں ۔‘‘
(سیر اعلام النبلاء جلد۶ صفحہ)
واضح ہو کہ احمد بن عبید النحوی نے ۲۷۸ ہجری میں وفات پائی ہے۔
محمد بن عمران المرزبانی ؒ:۔سید موصوف (علم الہٰدیؒ) نے اس خطبے کو اپنے شیخ ابو عبداللہ محمد بن عمران المرزبانی سے نقل کیا ہے۔
یہ جمادی الثانی ۲۹۷ھ پیدا ہوئے ( شذرات الذہب لابن حماد الحنبلی جلد ۳ صفحہ۱۱۱ طبع بیروت) یاقوت حموی کی معجم الادباء جلد۱۸ صفحہ ۲۶۸ طبع دار المامون مصر میں ان کے متعلق لکھا ہے:
کان راویۃ صادق اللہ جۃ واسع المعرفۃ بالروایات کثیر السماع روی عن البغوی و طبقتہ۔۔۔ وکان ثقۃ صدوقاً من خیار المعتزلۃ۔۔
معروف فاضل محشی ومحقق علامہ محمد ابوالفضل ابراہیم المصری نے کتاب غرر الفوائدو دررالقلائد کے مقدمہ میں لکھا ہے :
فقدکان اماماً من ائمۃ الادب وشیخا من شیوخ المعتزلۃ وعلما من اعلام الروایۃ۔۔۔
’’علم و ادب کے ائمہ میں سے ایک امام اور معتزلہ کے شیوخ اور راویان حدیث میں سے تھے۔‘‘
(غرر الفوائد جلد۱صفحہ۷ الطبعۃ الا ولی داراحیاء الکتب العربیہ مصر ۱۹۵۴ء)
حافظ ابن خلکان نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
۔۔۔۔ المر زبانی الخراسانی الاصل البغدادی المولد صاحب التصانیف المشہورۃ والمجامیع الغریبۃ کان روایۃ للادب صاحب اخبارو توالیفہ کثیرۃ وکان ثقۃ فی الحدیث ومائلا الی التشیع فی المذہب۔۔۔
’’یہ اصل خراسانی تھے بغداد میں پیدا ہوئے، مشہور کتابوں کے مصنف ہیں علم و ادب کے راوی اور تالیفات کثیرہ کے مالک تھے اور حدیث بیان کرنے میں قابل وثوق ہیں اور مذہب میں ذراتشیع کی طرف میلان تھا۔‘‘
(وفیات الاعیان جلد۱ صفحہ ۶۴۲ طبع قدیم مصر، شذرات الذہب جلد۳ صفحہ۱۱۱) ۔
ممکن ہے کہ کوئی کم فہم یہ سمجھ بیٹھے کہ مرزبانی شیعہ تھا یہ تصور قطعاً غلط ہے بلکہ وہ معتزلی اہلسنت تھا بقول ابن خلکان صرف مائل بہ تشیع تھا حقیقی شیعہ بالکل نہ تھا چنانچہ ائمہ اہل سنت نے ان کے معتزلی المذہب ہونے کی صراحت بایں الفاظ فرمائی ہے علامہ ذہبی نے ان کے حالات میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے:
۔۔۔کان معتزلیاً ثقۃً
۔۔۔ ابوعبداللہ محمد بن عمران المرزبانی معتزلی اور قابل وثوق تھا ۔
(سیر اعلام النبلاء جلد ۱۶ صفحہ۴۴۸، میزان الاعتدال جلد۳ صفحہ ۶۷۲؍۶۷۳، العبرفی خبر من غبر جلد۲ صفحہ ۱۶۶ طبع بیروت)
اور بعینہا اسی طرح علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی نے ان کا مذہب یہی بتلایا ہے :
کان مذہبہ الاعتزال وکان ثقۃ
’’ان کا مذہب معتزلی تھا اور (روایت کے باب میں) ثقہ تھے‘‘
(ملاحظہ ہو لسان المیزان جلد۵ صفحہ ۳۲۷ طبع دکن)
البتہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت کے گہرے جذبات اور مخلصانہ عقیدت کی وجہ سے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تشیع کی طرف میلان تھا درحقیقت ان کا تعلق مسلک اہل سنت سے تھا۔ ابو عبداللہ محمد بن عمران مرزبانی ثقہ اور معتبر ہے اور اس نے خطبہ فدک کو اپنے بزرگ محمد بن احمد الکاتب سے سماعت فرمایا اور پھر ’’حدثنی‘‘ کہہ کر آگے پھیلایا ہے۔ مرزبانی نے ۳۸۴ھ کو وفات پائی ہے۔
شیعہ راوی سے مروی روایت کی حجیت تسلیم شدہ ہے
اگر بفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ راوی شیعہ تھے تب بھی ان کی بیان کردہ حدیث یا روایت کے قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اس لئے کہ محدثین اور ماہرین اصول حدیث اہلِ سنت کا رواۃ حدیث کے بارے میں یہ مسلمہ اصول ہے:
الغلوفی التشیع لیس بجرح اذا کان الراوی ثقۃ
’’جب راوی ثقہ ہوتو محض غلودر تشیع موجب جرح نہیں ہے‘‘
اس موقف پر دلیل یہ ہے کہ کتب اہل سنت میں اکثر غالی شیعہ راویوں کو قابل وثوق اور ان سے مروی روایات کو قبول کیا گیا ہے چنانچہ مشہور ماہر علم رجال علامہ ذہبی نے کوفہ کے رہنے والے ایک کٹر شیعہ راوی ابان بن تغلب کے متعلق لکھا ہے:
ابان بن تغلب الکوفی شیعی جلد لکنہ صدوق فلنا صدقہ و علیہ بدعتہ وقد وثقہ احمد بن حبنل وابن معین وابو حاتم واوردہ ابن عدی وقال کان غالیاًفی التشیع۔۔۔ الخ
’’ ابان بن تغلب کوفی کٹر شیعہ ہیں لیکن یہ ہیں سچے، پس ان کی صداقت وسچائی ہمارے لئے اور بدعت ان کی اپنے لئے اور امام احمد بن حنبل، امام ابن معین اور امام ابوحاتم رازی نے بلاشبہ ان کی توثیق کی ہے اور ابن عدی ان کے حالات کو لائے ہیں اور کہا ہے کہ یہ غالی شیعہ تھے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اہل سنت کی اصطلاح میں غالی شیعہ اسے کہا جاتا ہے کہ جو شخص حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ محبت کرتا ہو اور انہیں تمام صحابہ ؓ سے افضل و ارفع جانتا ہو اور انہی کو بعد از پیغمبرؐ متصل خلیفہ سمجھتا ہواور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرتاہو۔واضح رہے کہ شیعہ سے متعلق اس قسم کی اصطلاحات کے دراصل خالق بنی امیہ ہیں اور اس کے پس منظرمیں امویوں کے جبر و تشدد کا نتیجہ اور ان کی شیعہ دشمنی کار فرما تھی۔ بعد ازاں علامہ ذہبی نے ان کے حالات پر اجمالی بحث کی ہے اس کے بعد بطور نتیجہ کلام یوں رقمطراز ہیں:
فہذا کثیر فی التابعین وتابعیہم مع الدین والورع والصدق فلورد حدیث ہؤلاء لذہب جملۃ من آلاثار النبویۃ وہذہ مفسدۃ بینۃ
’’اس قسم کا (تشیع) تابعین اور تبع تابعین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے اس کے باجود وہ دیندار، پرہیزگار اور سچے ہیں اگر ان شیعہ راویوں کی احادیث کو رد کر دیا جائے تو اس سے احادیث نبویہ کا بڑاذخیرہ ضائع ہو جائے گا اور یہ بہت بڑی واضح خرابی ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال جلد۱ صفحہ۵ طبع مصر، تدریب الراوی للسیوطی صفحہ ۱۲۹ طبع مدینہ منورہ)
اہل علم طبقہ جانتا ہے کہ اہل سنت کی بنیادی کتابیں صحاح ستہ میں بہت بڑی تعداد میں شیعہ رواۃ موجود ہیں ایسے راویوں کی نشاندی ہی کے لئے دیگر کتب رجال کے علاوہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’مقدمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ مثال کے طور پر کتب صحاح ستہ کا ایک راوی عدی بن ثابت انصاری ہے جو صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ شیعوں کی مسجد کا امام اور ان کا بہت بڑا خطیب اور واعظ تھا، اس کے باوجود اس سے مروی احادیث اعلیٰ طبقہ میں شمار ہوتی ہیں۔
علامہ ذہبی اس کا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں:
الامام الحافظ الواعظ الانصاری الکوفی۔۔۔
اور امام احمد بن حنبل، امام عجلی، امام نسائی اور امام ابوحاتم رازی وغیرہ آئمہ حدیث نے اس کی توثیق کی ہے ۔بعد ازں علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
کان امام مسجد الشیعۃ وقاصہم
’’ عدی بن ثابت شیعہ کی مسجد کے امام اور ان کے خطیب تھے۔‘‘
(سیراعلام النبلاء ج۵ صفحہ۱۸۸، میزان الاعتدال ج۳ صفحہ۶۱،مقدمہ فتح الباری صفحہ۴۲۴ اور تہذیب التہذیب وغیرہ)
علاوہ بریں اس سلسلہ میں حاشیہ محمد حسن سنبہلی براصول شاشی صفحہ ۷۶ طبع دہلی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا اخبار و آثار اور ناقابل تردید دلائل سے یہ حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آگئی ہے کہ اہلسنت کے اصول حدیث کے مطابق شیعہ سے مروی احادیث و روایات قابل عمل اور لائق التفات ہیں یہاں اس مسئلہ پر مزید بحث باعث تطویل ہے لہٰذا ان ہی الفاظ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
؎ قیاس کن زگلستان من بھار مرا
محمد بن احمد الکاتبؒ:۔ اس کا پورا نام اس طرح ہے ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابراہیم الحکیمی الکاتب ہے یہ بغداد کے رہنے والے تھے امام دارقطنی۔۔۔ محمد بن عمران المرزبانی جن کا ابھی اوپر تذکرہ ہوا ہے اور دیگر اکابر اس سے روایت کرتے ہیں یہ روایت کے باب میں ثقہ ہیں۔
(تاریخ بغداد جلد۱ صفحہ ۲۶۸؍۲۶۹ طبع بیروت، شذرات الذہب جلد۲ صفحہ۳۴۳، نشوار المحاضرہ للسیوطی جلد۶ صفحہ۱۷۷، ہدیۃ العارفین للبغدادی جلد۲صفحہ۳۸)۔
محمد بن احمد الکاتب ماہ ذی القعدہ ۲۵۲ ہجری میں پیدا ہوا اور ۳۳۶ ہجری میں انتقال کیا
(المنتظم لابن الجوزی جلد ۶ صفحہ۳۵۹ طبع دکن، الانساب للسمعانی جلد۲ صفحہ۲۴۴ طبع بیروت، الوافی بالوفیات للصفدی جلد۲ صفحہ۴۰ طبع مصر)
رفع اشکال : بعض طبائع کی طرف سے یہ سوال وارد کیا جا سکتا ہے کہ محمد بن احمد الکاتب کے لئے ’’ثقۃ الاانہ یروی مناکیر‘‘ استعمال ہوا ہے اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ کوئی جرح نہیں ہے علمائے فن نے اس کی صراحت کی ہے چنانچہ اصول حدیث کے ماہر علماء ’’یروی مناکیر‘‘ اور ’’منکر الحدیث‘‘ میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وان تفرق بین روی المناکیر اویروی المناکیر اوفی حدیثہ نکارۃ نحوذلک وبین قولہم منکر الحدیث ونحوذلک بان العبارات الاولی لا تقدح الراوی قدحایعتد بہ والاخری تجرحہ جرحاً معتدابہ
تم پر ’’روی المنا کیر‘‘ یا ’’یروی المناکیر‘‘ یا ’’فی حدیثہ نکارۃ ‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ کے اور ’’منکر الحدیث‘‘ کے درمیان فرق کرنا لازم ہے کیونکہ پہلے الفاظ قابل اعتبار جرح نہیں ہیں برعکس دوسرے یعنی منکر الحدیث کے کہ یہ راوی پر ایسی جرح ہے جس کا اعتبار کیا جاتا ہے۔‘‘
(الرفع والتکمیل صفحہ۱۵۰ طبع حلب، نصب الرایہ للزیلعی جلد۱ صفحہ۱۷۹ طبع قاہرہ، قواعد فی علوم الحدیث صفحہ۶۳ طبع الریاض، ابکار المنن مبارکپوری صفحہ ۱۹۱ طبع دہلی)
مزید تفصیل کے لئے عصر حاضر کے مشہور ماہر فن حدیث محمد عبدالرحمن المرعشیلی کی تازہ تصنیف فتح المنان مقدمہ لسان المیزان صفحہ۲۶۲ تاصفحہ۲۶۴ طبع دار احیاء التراث العربی بیروت ملاحظہ کیجیے
سطور بالا میں بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہوا کہ یروی المناکیر جیسے الفاظ محمد بن احمد الکاتب کے ثقہ اور صدوق ہونے کی منافی نہیں بڑے بڑے جید ائمہ نے اس کو ثقہ کہا ہے اس کے لئے کوئی جرح مفسر ثابت نہیں ہے حالانکہ معمولی فہم کا انسان بھی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ
جس ثقہ یا صدوق راوی پر معمولی جرح یعنی یہم،لہ مناکیر، لہ اوہام اوریخطی وغیرہ ہو تو اس کی منفرد حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔
عطیہ عوفی ؒ پر جرح اور اس کا جواب
اس خطبہ (فدک) کی سند میں راوی عطیہ العوفی ہے جو کہ ضعیف ہے علماء نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے تو یہ خطبہ قابل احتجاج نہیں ہے۔
جواب:۔ جناب عطیہ بن سعد العوفی ؒکوفہ کے جلیل القدر تابعی ہیں ان کو بعض صحابہ کرامؓ سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے ان کا شمار اجلئہ روایان حدیث میں ہوتا ہے حضرت علی المرتضیٰ ؑ کے ظاہری زمانہ خلافت میں یہ پیدا ہوئے ان کے والد بزرگوار حضرت سعد بن جنادہ ؓ بارگاہ حضرت علی ؑ میں حاضر ہوئے عرض کیا اے امیر المومنین ؑ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند عطا فرمایا ہے اس کانام تجویز کیجیے۔ آپ نے فرمایا ’’ہذا عطیۃ اللہ‘‘ یہیں سے ان کا نام عطیہ رکھا گیا۔
انہوں نے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے خطبۂ فدک کو عبداللہ محض اور دیگر مشاہیر صحابہؓ وتابعینؒ سے روایت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت علی ؑ کی محبت سے حظ وافر عطا فرمایا تھا یہی وجہ ہے کہ امتداد زمانہ کے زیر اثر کچھ متعصب لوگوں نے ان کی بے جا تضعیف کی ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جرح جب تعصب و عداوت اور منافرت و غیر کی بنا پر ہوتو ایسی جرح بالاتفاق قابل سماعت نہیں ہے بلکہ یہ جرح نہایت مردود اور مطرود ہے۔
عطیہ عوفی ؒ ۱۱۱ ھ کو شہر کوفہ میں واصل بحق ہوئے۔ ان کی حیات مستعار میں ۸۱ھ ان کے لیے انتہائی صبر آزما سال تھا۔
اسی سال سفاک زمانہ حجاج بن یوسف نے اپنے گورنر کو حکم دیا تھا کہ عطیہ اگر علی بن ابی طالبؑ کو سب و شتم کرے تو فبہا وگرنہ اسے ۴۰۰ کوڑے مارے جائیں اس کے سر اور داڑھی کے بال بھی نوچ لیے جائیں تو جناب عطیہ عوفی ؒ نے بھرے دربار میں جلادوں اور ننگی تلواروں کے ہجوم میں اس فعل قبیح سے صاف انکار کر دیا بالآخر اس کو ان سنگین مراحل سے گزرنا پڑا۔
(ملاحظہ ہو: طبقات ابن سعد ج ۶ صفحہ ۲۱۳ طبع لیدن، ذیل المذیل من تاریخ الصحابہ والتابعین لابن جریر الطبری صفحہ ۹۵ طبع مصر، تہذیب التہذیب ج ۷ صفحہ ۲۲۷ طبع دکن)
قارئین کرام! مذکورہ بالا بیان کیے گئے مندرجات سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ اگر عطیہ عوفی ؒ خلیفہ راشد حضرت علی ؑ اور ان کی اولاد پاک کی شان اقدس میں خدا نخواستہ نازیبا کلمات استعمال کرتا تو ’’جمہور‘‘ کے نزدیک حریز بن عثمان حمصی (مشہور ناصبی، بخاری کا راوی ۱؎ ہے) اور عمران بن حطان (بخاری کا راوی ہے حضرت علی ؑ کے قاتل ابن ملجم مرادی ملعون کی مدح سرائی کیا کرتا تھا) کی طرح ثقہ، معتبر اور انتہائی قابل اعتماد راویوں میں شمار ہوتا حالانکہ اصول حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ ناصبی اپنی منافقت اور عداوت اہل بیتؑ کی وجہ سے غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔ بلاوجہ صرف محبت علی ؑ کے جرم میں عطیہ العوفی ؒ کو متہم او ر مطعون کرنے کی سعی نا مشکور کی گئی۔
جبکہ امام بخاری کی ’’الادب المفرد‘‘ کے علاوہ سنن اربعہ یعنی ترمذی، ابوداود اور ابن ماجہ جیسے کتب صحاح کے مشاہیر ائمہ حدیث نے عطیہ عوفی ؒ سے روایت حدیث کو باعث شرف سمجھا۔ جو اس کے عادل اور قابل اعتبار ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔
سطور ذیل میں ہم اہل سنت کے مشاہیر ائمہ اور محدثین کی توثیقات پیش کئے دیتے ہیں تمام کا استقصاء تو دشوار ہے لیکن بطور مثال صرف چند ایک کی تصریحات یہ ہیں۔
امام ابن معین نے عطیہ عوفی ؒکی زبردست توثیق کی ہے۔
(ملاحظہ فرمائیے: مجمع الزوائد للہیثمی ج۹ صفحہ ۱۰۹ طبع بیروت، تہذیب التہذیب ج ۷ صفحہ ۲۲۵، تاریخ یحی ابن معین ج ۲ صفحہ ۴۰۶ طبع حلب)۔
جب یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا: کیف حدیث عطیۃ؟ آپ عطیہ عوفی کی حدیث کو کیسے پاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا ’’ صالح ‘‘۔ ( مسند ابن الجعد صفحہ ۳۰۲ ۔ روایت نمبر ۲۰۴۸ طبع دار الکتب العلمیہ ۔ بیروت)
۱؎ اس سلسلہ میں کتب صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کے ناصبی راوی اور ان پر سیر حاصل تبصرہ کے لیے ہماری تازہ تصنیف ’’الھدیۃ السنیۃ بجواب تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کی پہلی جلد ملاحظہ فرمائیں۔
امام ابن معین علم حدیث اور فن جرح وتعدیل کے امام ہیں یہ مذہب کے لحاظ سے غالی حنفی تھے۔
جیسا کہ علامہ ذہبی نے اس کی تصریح اپنی کتاب ’’الرواۃ الثقات المتکلم فیہم بما لایوجب ردہم‘‘ میں کر دی ہے اتنے بڑے حنفی امام اور محدث کی توثیق و تصدیق کے بعد عطیہ عوفیؒ کے ثقہ اور معتبر ہونے میں کسی بھی شبہ کا احتمال ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔
چوتھی صدی ہجری کے بڑے محدث حافظ ابو حفض عمر بن احمد المعروف بابن شاہین بغدادی نے لکھا ہے :
عطیۃ العوفی لیس بہ بأس، یہ ثقہ ہے اس سے حدیث اخذ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(تاریخ اسماء الثقات صفحہ ۱۷۲، رقم ۱۰۲۳ طبع الدارا لسلفیہ کویت ) ۔
واضح رہے کہ تمام مستند اصول حدیث کی کتابوں میں یہ بات مرقوم ہے کہ آئمہ حدیث کی اصطلاح میں ’’ لابأس بہ‘‘ راوی کے ثقہ ہونے کا ہی مفہوم ہے۔ (۱)
۱؎جس راوی کے بارے میں ’’لا بأس بہ‘‘ کہا جائے تو وہ ثقہ ہوتا ہے ۔ اس مطلب کو مزید دیکھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں ! تقریب النواوی مع شرحہ نوع ۲۳ صفحہ ۲۳۱ طبع مدینہ منورہ، تذنیب لتقعیب التقریب صفحہ ۴۰ از مولانا امیر علی حنفی ملیح آبادی طبع ناول کشور۔
نہا یت ثقہ اور معتمد مورخ محمد ابن سعد بصری نے عطیہ عوفی ؒ کے حالات میں لکھا ہے:
وکان ثقۃ ان شاء اللہ تعالیٰ ولہ احادیث صالحۃ
عطیہ عوفی ؒ انشااللہ تعالیٰ قابل وثوق ہے اور اس سے مروی احادیث بالکل درست ہیں۔
(طبقات ابن سعد ج ۶ صفحہ ۲۱۳ طبع لیدن ۱۳۲۱ھ)
اصح الکتب صحیح بخاری کے شارح علامہ بدرالدین عینی نے فقہ حنفی کی استدلالی کتاب ’’طحاوی شریف‘‘ کے راویوں کے حالات میں ایک ضخیم کتاب ’’مغانی الاخیارمن رجال معانی الآثار‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اس کی تلخیص مولانا رشد اللہ السندی نے ’’کشف الاستار عن رجال معانی الآثار‘‘ کے نام سے ایک جلد میں مرتب کی جسے دارالعلوم دیو بند کے مفتی اعظم مولانا محمد شفیع الدیوبندی نے اپنے مفید مقدمہ وحواشی کے ساتھ اپنے مرکزی ادارہ ’’دار الاشاعت والتدریس دار العلوم دیوبند‘‘ سے ۱۹۳۰ ء کو شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے یہی نسخہ ہمارے پیش نظر ہے۔
چنانچہ اس مذکورہ کتاب میں امام بدرالدین عینی اور مولانا رشداللہ السندی حضرت عطیہ عوفیؒ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
عطیۃ بن سعد بن جنادۃ العوفی الجدلی الکوفی ابوالحسن صدوق
’’عطیہ بن سعد عوفی (روایت حدیث کے باب میں) سچا ہے‘‘
(کشف الاستار صفحہ۷۵ طبع دیوبند)
او ر اسی طرح ماضی قریب کے مشہور محقق علامہ استاذ احمد محمد شاکر نے بھی سنن ترمذی کی شرح میں ان کی بھرپور مدافعت کی ہے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے :
’’لوگوں نے عطیہ کے بارے میں کلام کیا ہے حالانکہ وہ (حدیث کے باب میں) سچا ہے میرے نزدیک اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہے اور بلا شبہ امام ترمذی نے اس کی سب سے زیادہ تحسین کی ہے ۔‘‘
چنانچہ ان کی اصل عبارت یہ ہے:
وعطیۃ ہذا تکلموا فیہ کثیراً وہو صدوق وفی حفظہ شئی و عندی ان حدیثہ لا یقل عن درجۃ حسن وقد حسن لہ الترمذی کثیراً کما فی الحدیث
(التعلیقات علیٰ سنن ترمذی ج ۲ صفحہ ۳۴۲ باب ماجاء فی صلاۃ الضحی طبع قاہرہ)
نیز امام ترمذی نے عطیہ عوفی ؒ سے مروی اس محولہ بالا باب کی حدیث اور حدیث ثقلین کے ذیل میں ان دونوںکو حسن اور بعض دیگر احادیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
نواب صدیق حسن خان ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و در سندش عطیہ بن سعد عوفی ست… وابن معین وغیرہ توثیقش نمودہ و ترمذی حدیث او را تحسین کردہ وایں حدیث از ہماں جنس ست کہ آن را حسن گفتہ وابن خزیمہ حدیث اورا در صحیح خود آوردہ ونسائی باسناد صحیح از طارق بن شہاب بجلی آوردہ۔
’’اس حدیث کی سند میں عطیہ بن سعد عوفی ہے ابن معین اور دیگر آئمہ نے اس کی توثیق کی ہے امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا اور یہ حدیث اسی جنس سے ہے کہ جسے ہم حسن کہا جائے امام ابن خزیمہ اس کی حدیث کو اپنی ’’صحیح‘‘ میں لائے ہیں اور امام نسائی صحیح سند کے ساتھ طارق بن شہاب بجلی کے طریق سے عطیہ عوفی کی حدیث لائے ہیں۔‘‘ (ریاض المرتاض صفحہ۲۱۱ طبع بہوپال، اکلیل الکرامۃ فی تبیان مقاصد الامامۃ ص۲۱۹ مطبع صدیقی ۱۲۹۴ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے امالی الاذکار جلد۲ صفحہ۴۱۴ طبع بیروت میں کچھ تفصیل سے عطیہ عوفی کی توثیق نقل کی ہے۔ مزید برآں احناف کے فقیہ شہیر ابو الحسنات مولانا عبد الحی لکھنوی کے مایہ ناز شاگرد مولانا امیر علی حنفی ملیح آبادی متوفی ۱۹۱۹ء مترجم ہدایہ وفتاویٰ عالمگیری نے بھی اپنی کتاب تقعیب التقریب مطبوع برحاشیہ تقریب التہذیب صفحہ ۲۶۵ طبع نول کشور میں عطیہ عوفی کے بارے میں امام ترمذی کی تحسین کو نقل کیا ہے۔
یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ امام ترمذی کا عطیہ سے مروی حدیث کو ’’حسن ‘‘کہنا اس سے مراد سند کا اچھا ہونا ہے خود امام ترمذی نے کتاب ’’العلل‘‘ میں اس بات کی تصریح بھی کر دی ہے :
’’جہاں ہم ’’حدیث حسن‘‘ کہتے ہیں وہاں ہماری مراد سند کا حسن ہونا ہے جو کئی سندوں سے مروی ہو جس میں کوئی راوی متہم بالکذب نہ ہو اور وہ حدیث شاذ بھی نہ ہو، تو وہ ہمارے نزدیک حسن ہے‘‘۔
اب یہ کہنا کہ عطیہ عوفی غیر ثقہ ہے محض تعصب اور تحکم و سینہ زوری ہے ورنہ ان مندرجات کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ امور ثابت اور واضح و آشکار ہو چکے ہیں کہ عطیہ عوفی ؒحدیث کے باب میں ثقہ، صدوق اور نہایت اعلیٰ درجہ کی صفات کا حامل ہے اس سے مروی احادیث اور روایات عند المحدثین صحیح ہیں۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے باوجود پھر بھی کوئی بلا تدبر و تفکر انکار پر مصر رہے تو یہ لا علاج مرض ہے کیونکہ:
؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
اکابر علماء اہل سنت جنہوں نے خطبہ فدک کو نقل کیا ہے
ان ہی حقائق کے پیش نظر بہت سے وسیع النظر محققین اور اساطین علم وتحقیق نے کھلے دل سے اس خطبہ فدک کو تسلیم کیا اور اپنی تالیفات میں بلا نکیر اسے نقل کر دیا ہے۔
ذیل میں مزید ان مصنفات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
چنانچہ تیسری صدی ہجری کے معروف ادیب اور مشہور مورخ ومحقق ابوالفضل احمد بن ابی طاہر المعروف ابن طیفور جو بغداد میں ۲۰۴ ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۸۰ ھ میں انتقال فرما گئے آپ اہل سنت کے بلند پایہ محدث ہیں ان کے مزید حالات کے لیے تاریخ بغداد، جلد ۴ صفحہ ۲۱۱، معجم الادباء جلد۱ صفحہ۳۸۵، الاعلام للزرکلی جلد۱ صفحہ۱۳۸، فہرست لابن ندیم صفحہ۱۸۰ وغیرہ کتب رجال کو دیکھا جائے۔
انہوں نے اپنی تاریخی کاوش ’’بلاغات النساء‘‘ میں ان خطبوں کو شامل کرنے کا شرف حاصل کیا اور تین سلسلوں سے وہ ان کی سند لائے ہیں بلاغات النساء مطبوعہ الطبعۃ الاولی دارالاضواء بیروت ۱۹۹۹ء اس کی تحقیق وتخریج کا نہایت قابل ستائش کام ڈاکٹر یوسف البقاعی نے کیا ہے یہی نسخہ ہمارے کتب خانہ کی زینت ہے چنانچہ مورخ موصوف خطبہ فدک کو بعنوان ’’کلام فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے ذیل میں لائے ہے جو صفحہ ۲۰ تا صفحہ۳۰ تک پھیلا ہوا ہے اس خطبہ کی صحت کے لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے صاحبزادے جناب زید شہید ؓ کا یہ بیان لکھا ہے:
رایت مشایخ آل ابی طالب یروونہ عن آبائہم ویعلمونہ ابنائہم
’’میں نے خاندان ابوطالب کے بزرگوں کو اپنے آباء و اجداد سے یہ خطبہ روایت کرتے ہوئے دیکھا اور وہ اپنی اولاد کو یہ خطبہ یاد کرواتے تھے‘‘
اور مورخ ابن طیفور نے یہ جملہ بھی جناب زید شہید ؓ کا ہی ارقام کیا ہے
وقد حدثنیہ ابی عن جدی یبلغ بہ فاطمۃ علی ہذہ الحکایۃ
’’اور بے شک مجھے اپنے پدر بزگوار نے میری جدہ ماجدہ کے حوالے سے یہ خطبہ بیان فرمایا ہے۔‘‘
۲۔ برادران اہلسنت کے ایک اور قابل قدر دانشمند امام ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری بغدادی متوفی ۳۲۳ھ کا نام ملتا ہے۔ جنہوں نے چوتھی صدی ہجری میں خاصے تحقیقی کارنامے سر انجام دیے ہیں اور جن کی ایک تصنیف ’’السقیفۃ وفدک‘‘ ہے بحمد اللہ ہمارے کتب خانہ میں اس کا ایک مطبوع نسخہ موجود ہے یہ وہ علمی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ممتاز عالم عبدالحمید ابن ابی الحدید بغدادی نے اپنے تاثرات یوں بکھیرے ہیں:
و ابوبکر الجوہری ہذا عالمٌ محدّثٌ، کثیر الادب، ثقۃٌ، ورعٌ اثنی علیہ المحدثون وروواعنہ مصنفاتہ
’’اور ابوبکر جوہری۔ یہ مانے ہوئے عالم، محدث، ادب آفریں۔ نہایت معتبر اور پرہیز گار بزرگ ہیں۔ سارے محدثین نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کے متاع فکر کی روایت کی ہے۔‘‘ (شرح ابن ابی الحدید جلد۱۶صفحہ۲۱۰ طبع مصر)
ان کے علاوہ امام ابوبکر جوہری کی توثیق بہت سی کتب رجال میں موجود ہے لیکن یہ اوراق مزید تذکرہ کے متحمل نہیں ہیں۔
امام جوہری نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ ۹۷تا صفحہ ۱۰۵ طبع مکتبہ نینوی الحدیثہ میں خطبہ فدک کو چار طرق و اسانیدسے بیان کیا ہے ۔
۳۔اور علامہ ابن ابی الحدید بغدادی نے اپنی مایہ ناز کتاب شرح ابن ابی الحدید جلد۱۶ صفحہ۲۱۰ تا صفحہ۲۳۴طبع دار احیاء الکتب العربیہ مصر ۱۹۶۲ء میں حضرت علی المرتضیٰ ؑ کے خطبہ میں مروی ’’وکانت فی ایدینا فدک‘‘ کے تحت بڑی شرح و بسط کے ساتھ درج کیا ہے۔ابن ابی الحدید کی یہ شرح بہت سے اہم اور دقیق مطالب پر مشتمل ہے جس سے بعد میں آنے والے اہل سنت کے علماء نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
۴۔شہرہ آفاق مورخ احمد بن ابی یعقوب بن واضح الکاتب عباسی، یہ تیسری صدی کا مورخ ہے اور بقول علامہ شبلی نعمانی کہ ’’اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف ہے چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا اس لئے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم پہنچا سکا ہے اس کی کتاب جو ’’تاریخ یعقوبی ‘‘کے نام سے مشہور ہے ‘‘ اس کتاب کے صفحہ ۸۶ جلد ۲ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۶۰ ء میں حضرت بتول عذرا ء ؑ کے اس احتجاجی خطبے کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
۵۔تیسری اور چوتھی صدی کے معروف مؤرخ ابوالحسن علی بن حسین المسعودی الشافعی المتوفی ۳۴۶ ھ جو بقول شبلی نعمانی کہ’’فن تاریخ کا امام ہے اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مؤرخ پیدا نہیں ہوا وہ دنیا کی اور قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا‘‘ (الفاروق صفحہ ۷)۔
انہوں نے اپنی تصنیف ’’مروج الذہب ‘‘ جلد اول صفحہ۴۱۶ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۱۹۲۷ء میں بعد از وفات پیغمبر ؐ رونما ہونے والے واقعات اور اس خطبے کی جانب یوں اشارہ کیا ہے:
واخبار من قعد من البیعۃ ومن بایع وما قالت بنو ہاشم وما کان من قصۃ فدک وماقالہ اصحاب النص والاخبارفی الامامت وما قالوہ فی امامۃ المفضول و غیرہ وما کان من فاطمۃ وکلامہا متمتلۃ حین عدلت الی قبر ابیہا علیہ السلام ۔۔۔۔ مماترکنا ذکرہ من الاخبار فی ہذا الکتاب اذکنا قدأتینا علی جمیع ذلک فی کتابنا اخبار الزمان والکتاب الاوسط فاغنی ذلک عن ذکرہ ہاہنا،
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے خاندان بنو ہاشم کا ابوبکر کی بیعت اور واقعہ فدک کے متعلق مفسرین و مؤخرین کے بیانات امامت اور مفضول کی امامت کے متعلق ان کی آراء اور سیدہ فاطمۃ الزہراء ؑ کا اپنے بابا رسول خداؐ کی قبر مبارک پر فریاد کرنا اور جناب فاطمہ زہر اور ان کے خطبے کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں کیا بلکہ اپنی دوسری تصانیف ’’اخبار الزمان‘‘ اور ’’کتاب الاوسط‘‘ میں ہم نے اس کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے ۔
ہمیں مؤثق ذرائع سے مسموع ہوا ہے کہ علامہ مسعودی شافعی کی محولہ بالا دونوں کتابیں بیروت سے چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن تلاش بسیار کے باوجود ہمیں دستیاب نہ ہو سکیں ورنہ ہم اپنے قارئین کے لیے انہی کتابوں سے اصل عبارت کو نقل کر دیتے۔
۶۔ دنیا ئے اسلام کے سیرت نگار ابوالفرج علی بن حسین اصبہانی اموی متوفی ۳۵۶ھ نے اپنی تالیف ’’مقاتل الطالبیین‘‘ جلد اول صفحہ۶۲تا صفحہ۶۳طبع داراحیاء العلوم بیروت ۱۹۶۲ ء میں جناب عون ابن عبداللہ ابن جعفر کے حالات میں اس خطبے کی نشاندہی اس طرح کی ہے:
اُمّہ زینب العقیلۃ بنت علی ابن ابی طالب وامّہا فاطمۃ بنت رسوال اللہﷺ والعقیلۃ ہی الّتی رویٰ ابن عبّاس عنہا کلام فاطمۃ ص فی فدک فقال: حدّثتنی عقیلتنا زینب بنت علیؓ۔۔۔۔الخ۔
’’جناب عون کی والدہ۔ علی ؑ ابن ابی طالب اور رسول کریم کی بیٹی جناب فاطمہ زہراء ؑ کی صاحبزادی حضرت زینب ؑعقیلہ تھیں اور فہم وفراست کی نشانی یہ وہی زینبؑ ہیں جن کے بارے میں جناب عبداللہ ابن عباس نے کہا تھا کہ: ’’حضرت فاطمہ ؑ کا فدک والا خطبہ مجھے عقلیہ بنی ہاشم جناب زینب بنت علی سے دستیاب ہوا ‘‘
۷۔ بلند پایہ محدّث اور قابل تعریف مورخ شمس الدین ابوالمظفر یوسف بن فرأغلی بن عبداللہ بغدادی المعروف سبط ابن جوزی حنفی نزیل دمشق (متوفی ۶۵۴ھ)
اپنی معرکۃ الاراء کتاب ’’تذکرۃ الخواص من الامۃ‘‘ صفحہ ۲۸۵طبع دارالاضواء بیروت ۱۴۰۱ ھ میں جناب سیدہ ؑکی فصاحت و بلاغت پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے آپ کے خطبہ فدک کے ایک خاص حصے کو تحریر میں لائے ہیں
۸۔ عربی ادب کے نامور سکالر امام مجدالدین ابو سعادات مبارک المعروف ابن اثیر الجزری متوفی ۶۰۶ھ نے اپنی لغت کی مشہور ومتداو ل کتاب ’’النہایہ فی غریب الحدیث والاثر‘‘ جلد ۳ صفحہ ۳۵۷ المطبعۃ الخیریہ بمصر قاہرہ ۱۳۰۶ھ میں لفظ ’’لمۃ‘‘ کی وضاحت میں
لخت جگر پیغمبر کے خطبے کی جانب با یں الفاظ اشارہ فرمایا ہے:
’’لمہ‘‘ فی حدیث فاطمۃ رضی اللہ عنہا انہا خرجت فی لمۃ من نسائہا تتوطا ذیلہا الی ابی بکر فعاتبتہ ای فی جماعۃ من نسائہا،
۹۔حافظ ابن اثیر جزری نے منال الطالب شرح غریب الطوال صفحہ ۵۰۱ تا صفحہ۵۳۴ مطبوعہ مکہ مکرمہ میں جناب زینبؑ بنت علی ؑ کے حوالے سے خطبہ فدک کو نقل کیا ہے نیز ابن اثیر نے ابن قتیبہ کا یہ قول لکھا ہے قد کنت کتبتہ وانا أری ان لہ اصلاً خطبہ نقل کرنے کے بعد اس امر کی صراحت یوں کی ہے ہذا طرف من حدیث اطول منہ یروی من طریق اہل البیت و حکمہ حکم الحدیث الذی قبلہ فی الرد والقبول فان لفظہا ومعناہما معترفان من بحر واحد
۱۰۔لغت عرب کے امام جمال الدین محمد ابن مکرم افریقی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’لسان العرب ‘‘ جلد ۱۲ صفحہ ۵۲۲طبع دار صادر بیرو ت۱۹۹۷ء میں لفظ ’’لم‘‘ کی تشریح کے ذیل میں اس خطبے کا اقتباس وہی نقل کیا ہے جو نہایہ کے حوالے سے اوپر گزر چکا ہے۔
۱۱۔دور حاضر کے محقق، مورخ اور نقاد ڈاکٹر عبد الفتاح عبدالمقصود المصری نے اپنی گراں مایہ کتاب ’’سیدتنا البتول فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا‘‘ جلد ۲ صفحہ ۳۷۳ تا صفحہ۳۷۸ طبع مکتبۃ المنھل الکویتیہ بیروت ۱۹۸۲ء میں اس خطبے کو اپنی کتاب کی زینت بنایا۔
۱۲۔دمشق کے ایک سوانح نگار مصنف علامہ عمر رضاکحالہ نے اپنی کتاب ’’اعلام النساء فی عالمی العرب و الاسلام‘‘ جلد ۴ صفحہ ۱۱۶تا۱۲۳ مطبوعہ مطبعہ ہاشمیہ دمشق۱۹۵۹ء میں پورا خطبہ درج کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
۱۳۔ماضی قریب کے ایک صائب الرائے اور صحیح الفکر دانشور محقق استاد محمد بن حسن الحجوی الفاسی متوفی ۱۳۷۶ھ اپنی تالیف ’’ الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی‘‘ جلد اول صفحہ ۲۰۳ مطبوعہ الطبعۃ الاولیٰ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ ۱۳۹۶ھ میں زیر عنوان ’’سیدتنا فاطمۃ بنت مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں اس خطبہ کی طرف یوں توجہ مبذول فرماتے ہیں:
۔۔۔ لکن ترجمۃ فضلہا وعقلہا وادبہا وشعرہا و خطبہا وجودھا وفقہہا خصت بالتالیف وانظر خطبہا فی کتاب بلاغات النساء۔۔۔۔الخ
حقیقت حال یہ ہے کہ مؤلف موصوف فقہی مسلک کے لحاظ سے مالکی ہیں اور عقیدے کے اعتبار سے پکے سلفی اہلسنت ہیں جیسا کہ اسی کتاب جلد ۲ صفحہ ۲۰۰ کی ’’القسم الرابع‘‘ میں خود فرماتے ہیں:
اما عقیدتی فسنیۃ سلفیۃ اعتقد عن دلیل قرآنی برہانی ماکان علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الراشدوں۔۔۔مالکی المذہب ماقام دلیل۔۔۔
اس کتاب کے فاضل محشی استاد عبدا لعزیز بن عبدا لفتاح القاری نے بھی اس کتاب کے ابتدائی صفحہ پر مؤلف کا یہی مذہب ومسلک تحریر کیا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ زیر نظر کتاب اپنے موضوع پر مرجع اور ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے مؤلف نے کمال درجہ مطالعہ وتحقیق کے بعد بی بی عالیہ سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کی توثیق وتصویب فرمائی ہے۔
۱۴۔زمانہ حاضر کے ایک مشہور سکالر و دانشور استاد توفیق ابوعلم جن کا شمار اہلسنت کے شہیراور نامور محققین علماء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیف ’’اہل البیتؓ‘‘ صفحہ۱۵۷ طبع ا لطبعۃ الاولیٰ مصر ۱۹۷۰ء اور دوسری کتاب ’’فاطمۃ الزہراء ؓ ‘‘ صفحہ ۲۱۴ طبع دار المعارف بمصر قاہرہ،میں عنوان ’’بلاغتہا وفصاحتہا رضی اللہ عنہا‘‘ کے تحت جناب خاتون جنت ؑ کے پورے خطبے کو تحریر کیا ہے۔
مشاہیر علماء شیعہ جنہوں نے خطبہ فدک کو اپنی تالیفات میں درج کیا ہے
مندرجہ بالا تمام تصریحات برادران اسلامی کے معتمد علیہ اور جید علمائے کرام کی تھیں جنہوں نے اپنی تالیفات میں جناب مخدرہ کائنات سلام اللہ علیہا کے اس خطبے کو ارقام فرمایا ہے اور اب شیعہ مکتب فکر سے وابستہ جن علماء اعلام نے جناب فاطمۃ الزہراء ؑ کے ان ارشادات کو اپنی تصنیفات میں درج کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں
۱۵۔اعاظم علمائے شیعہ میں سے چوتھی صدی ہجری کے بطل جلیل عالم محمد بن جریر ابن رستم طبری اپنی معرکہ آراء کتاب ’’دلائل الامامۃ الواضحۃ‘‘ صفحہ ۳۰ تا صفحہ ۳۹ طبع نجف ۱۹۶۳ئمیں زیر عنوان ’’حدیث فدک‘‘ جگر گوشہ امام الانبیاء ؐکے خطاب کو پانچ طرق واسانید کے ساتھ تحریر میں لائے ہیں ۔
۱۶۔رئیس المحدثین ابو جعفر محمد ابن علی یعنی شیخ صدوق علیہ الرحمۃ متوفی ۳۸۱ھ نے اپنی ایک بیش بہا تصنیف ’’علل الشرائع‘‘ جلد ۱صفحہ۲۴۸طبع نجف میں موضوع کی مناسبت سے صدیقہ طاہرہؑ کے اس خطبے سے استنباط فرمایا ہے اور اپنی دوسری کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ صفحہ ۳۵۴طبع موسسۃ الاعلمی بیروت میں جناب سیدہ ؑ کے ان ارشادات کا پورا متن درج کیا جو آپ نے مدینے کی خواتین کے سامنے فرمائے تھے چونکہ آپ پوری کائنات کی خواتین کے لئے ایسا نمونہ عمل اور اسوہ کامل ہیں کہ مہتاب بھی آپ کے نقوش کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
۱۷۔چھٹی صدی ہجری کے بلند دانشمند شیخ احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسی نے کتاب ’’احتجاج طبرسی‘‘ میں اس خطبہ کو حسب ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
روی عبداللّہ بن الحسن باسنادہ عن ابائہ علیہم السلام انہ لما اجتمع ابوبکر و عمر علی منع فاطمۃ فدک وبلغہا ذلک لاثت خمارہا علی راسہا۔۔۔۔الخ
(ملاحظہ فرمائیں :احتجاج طبرسی صفحہ ۶۱تاصفحہ۶۵ مطبوعہ المطبعۃ المرتضویہ نجف اشرف ۱۹۳۲ء)
۱۸۔ابو جعفر رشید الدین محمد بن علی بن شہر آشوب مازندرانی متوفی ۵۸۸ھ نے ’’مناقب آل ابی طالب‘‘ جلد۲ صفحہ ۲۰۶تا صفحہ ۲۰۸مطبوعہ قم المقدسہ میں جناب بتول ؑ عذراء کے ان ارشادات کو لکھا ہے ۔
۱۹۔امام السالکین جناب سید ابن طاؤس متوفی ؒ ۶۶۴ھ نے بھی اپنی تالیف ’’الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف‘‘ صفحہ ۲۶۳تا صفحہ ۲۶۴ طبع موسسۃ البلاغ بیروت ۱۴۱۹ھ میں بعنوان ’’خطبہ فاطمۃ الزہراء ؑ فی مجلس ابی بکر‘‘ کے ذیل میں اس خطبے کے اہم حصوں کو پوری سند کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
۲۰۔ساتویں صدی ہجری کے بہت بڑے عالم اور شارح نہج البلاغہ شیخ کمال الدین میثم بن علی ابن میثم بحرانی متوفی ۶۷۹ھ نے جناب عثمان ابن حنیف کے نام مولائے متقیان حضرت علی مرتضیٰ ؑ کے مکتوب گرامی کی تشریح میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’یہ نہایت طولانی خطبہ ہے۔ بعد ازاں انہوں نے اس کے بعض جملے بھی نقل کیے ہیں‘‘۔
(ملاحظہ ہو:شرح نہج البلاغہ لابن میثم بحرانی جلد ۵صفحہ ۱۰۵ طبع بیروت)
۲۱۔ساتویں صدی کے ایک عظیم دانشور علی ابن عیسیٰ اربلی متوفی ۶۹۳ھ اپنی کتاب ’’کشف الغمہ‘‘ جلد ۲ صفحہ ۱۰۸ تا صفحہ ۱۱۶ طبع نجف ۱۳۸۵ھ میں اس خطبے کو ابوبکر احمد بن عبدالعزیز بغدادی کی کتاب ’’السقیفۃ وفدک‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
۲۲۔علامہ محمد باقر مجلسی متوفی ۱۱۱۱ھ نے اس سر چشمہ نور اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنہایادگار کے انتہائی خوش نما تنوع کے بکھرے ہوئے پھولوںکو جمع کیا اور متعلقہ حوالوں کو بڑی وضاحت سے ’’بحار الانوار‘‘ جلد۶ صفحہ ۱۰۷ طبع بیروت میں رقم فرمایا ہے!
۲۳۔علامہ سید محسن الامین الحسینی العاملی نے ’’اعیان الشیعہ‘‘ جلد ۱ صفحہ ۴۵۹ تا صفحہ ۴۶۳ مطبوعہ دار التعارف للمطبوعات بیروت میں دختر پیغمبرؐکے ان احتجاجی فرمودات کو شامل کتاب کرنے کا شرف پایا ہے۔مذکورہ بالا سطور میں چند مصنفات کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے وگرنہ بی بی پاک سلام اللہ علیہا کے ان ارشادات کو اہل فکر ونظر کی ایک بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جنہیں خوف طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیا جار ہا ہے فذلک بحر لاساحل لہ ۔
؎گر نیاید بگوش حقیقت کس بر رسولاں بلاغ باشد و بس
یہ وہ تاریخی حقائق تھے جنہیں اجمالی طور پر ہدیہ قارئین کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس تاریخی خطبہ کی وثاقت میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل۔
قرآنی آیات سے استشہاد
الغرض عالمہ غیر معلمہ بی بیؑ نے اپنے بصیرت افروز خطبے میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے قرآن مجید کی متعدد آیات سے استدلال کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی۔ مزید برآں ایسی بکثرت روایات اور مستند علماء کی توضیحات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اپنے مؤقف کی تائید میں قرآنی آیات کو استحضار و استشہاد کے طور پر پیش کیا۔
چنانچہ یوصیکم اللہ اولاد کم کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی یوں تحریر کرتے ہیں: احتجت فاطمۃؓ بعموم قولہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین۔
حضرت فاطمہ زہراء ؓنے حضرت ابوبکر کے سامنے اس عمومی آیت کو بطور احتجاج پیش کیا۔
امام المناطقہ علامہ عبد العزیز بخاری اصول بزدوی کی مشہور شرح کشف الاسرار جلد۱ صفحہ۳۰۸ طبع الصدف پبلشرز کراچی میں ’’ باب العام اذا لحقہ الخصوص‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:
اجماع السلف علی الاحتجاج بالعموم الی بالعام الذی خص منہ فان فاطمۃ احتجت علی ابی بکر فی میراثہا من ابیہا بعموم قولہ تعالیٰ یوصیکم اللہ فی اولادکم الآیۃ مع ان الکافرو القاتل وغیرہما خصومنہ۔
اسلاف کا اجماع ہے کہ جس عام کی تخصیص کی گئی ہو اس سے احتجاج کرنا درست ہے کیونکہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں حضرت ابوبکرؓ کے خلاف اس آیت کے عموم کے ساتھ دلیل پیش کی تھی کہ یوصیکم اللہ فی اولاد کم… الخ باوجود اس کے کہ آیت کا عموم کافر اور اپنے باپ کی قاتل اولاد سے تخصیل خوردہ ہے۔
اور بعینہا اسی طرح قاضی بیضاوی نے اپنی تصنیف ’’مرصاد الافہام الی مبادی الاحکام‘‘ جو مختصر اصول ابن حاجب کی نہایت عمدہ شرح ہے، اس کے صفحہ ۹۸،۱۰۴ طبع قدیم بولاق مصر میں عموم جمع استدلال ہو سکتا ہے؟ کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ویدل علیہ وجوہ الاول تمسک الصحابۃ فان فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تمسک بعموم قولۃ تعالی یوصیکم اللہ فی اولادکم… الخ
یہ چند وجوہات سے ثابت ہے پہلی یہ کہ صحابہ کرامؓ نے عموم حکم سے تمسک کیا ہے چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عموم آیت یوصیکم اللہ فی اولادکم کے ساتھ تمسک کرکے استدلال پیش کیا۔ (کذا فی مختصر الاصول بن حاجب نحوی صفحہ ۷۵ المطبعۃ السعادۃ بمصر سن اشاعت ۱۳۲۶ھ)۔
اسی طرح شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رقم طراز ہیں:
پس ازاں صعب ترین اشکالات آن بود کہ حضرت فاطمہؓ و عباسؓ بظاہر عموم آیت یوصیکم اللہ متمسک شدہ میراث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلب کردند تمام مشکلات سے زیادہ مشکل حضرت ابوبکرؓ کے لیے یہ ہوئی کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ نے آیت مبارکہ یوصیکم اللہ فی اولادکم… الخ کے ظاہری عموم سے دلیل پکڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کا مطالبہ کیا۔ (ازالۃ الخفاعن خلافۃ الخلفاء مقصد۲ صفحہ ۲۹،۳۰ مطبوعہ صدیقی بریلی ۱۲۸۶ ھ)
مزید برآں اس سلسلے میں طبقات ابن سعد جلد دوم صفحہ ۸۶ طبع لیدن ’’باب ذکر میراث رسول اللہ صلعم وما ترک‘‘ کے ذیل میں حضرت امام جعفر الصادق ؑ سے مروی ایک روایت بایں الفاظ موجود ہے:
جاء ت فاطمۃ ابی بکر تطلب میراثہا وجاء العباس بن عبد المطلب یطلب میراثہ وجاء معہما علی فقال ابوبکر قال رسول اللہ لا نورث ما ترکناہ صدقۃ وما کان النبی یعول فعلی فقال علی وورث سلیمان داؤد قال زکریا یرثنی وترث من ال یعقوب قال ابوبکر ہو ہکذا وانت واللہ تعلم مثلما اعلم فقال ہذا کتاب اللہ ینطق فسکتوا وانصرفوا۔
(کذا فی کنزل العمال ج۳ صفحہ ۱۳۴ طبع دکن، جمع الجوامع للسیوطی ج۱۵ صفحہ ۳۷۸ طبع بیروت)
حضرت فاطمہ زہراء ؑ حق میراث طلب کرنے کے لیے ابوبکرؓ کے پاس آئیں اور جناب عباسؓ بن عبد المطلب بھی میراث مانگنے کے لیے آئے اور ان دونوں کے ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ ان کی ترجمانی کے لیے تشریف لائے، سو ابوبکرؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی میراث نہیں ہوتی جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہوتا ہے اور نبی کریمؐ جس کی کفالت کرتے تھے وہ میں کردوں گا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے اس میراث انبیاء کے جواب میں یہ آیات پیش کیں کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں: کہ حضرت زکریاؑنے دعا کی کہ مجھے بیٹا عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ وہ ایسا ہی ہے اور آپ قسم بخدا جیسا ہم جانتے ہیں ویسا آپ جانتے ہیں۔ اس پر حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے کہا کہ اللہ کی کتاب بول کر میراث انبیاء کو بیان کر رہی ہے اس پر مکالمہ ختم ہو گیا اور وہ چلے گئے۔
برصغیر کے مشہور سیرت نگار عالم مولانا حافظ عبد الرحمن امرتسری اپنی مشہور تصنیف ’’ الصدیق‘‘ میں قدرے وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو ابوبکر صدیق ؓکے شروع میں خلافت میں بی بی فاطمہؓ بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق کے پاس آئیں اور اپنے باپ کی وراثت کی دعویدار ہوئیں جس میں فدک اور دیگر اموال شامل تھے۔ ان کا دعویٰ قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی تھا یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ (۴ نساء: ۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد (کے حصوں) کے بارے میں تم سے کہ رہا ہے کہ لڑکے کا دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ ابوبکر صدیقؓ نے یہ جواب دیا کہ پیغمبروں کے مال میں وراثت نہیں ہوتی۔ اس پر بی بی فاطمہ ؓ ناراض ہو کر چلی گئیں اور مرتے دم تک ابوبکر صدیقؓ سے نہ بولیں۔ یہ قصہ کتب حدیث اور تاریخ میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
(ملاحظہ ہو کتاب الصدیق یعنی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے حالات۔ صفحہ ۱۰۴۔ ۱۰۵ ضمیمہ باب پنجم قصہ فدک و جمع قرآن۔ مطبع روز بازار امرتسر طبع اول ۱۸۹۷ ء)
تایخ شاہد ہے کہ حضرت سیدہ خاتون جنت ؑ کے جواب میں مخالف نے کوئی آیت پیش نہیں کی تو اس تناظر میں دختر رسول کا موقف انتہائی مضبوط ثابت ہوتا ہے۔
اس موضوع پر مستقل کتب رقم کی جا چکی ہیں جن کی طرف مراجعت باعث استفادہ ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ان احتجاجات کا اثر حکمرانوں پر بھی ہوا یا نہیں؟؟ اسلامی تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم وقت ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر ہی قبضے سے دستبردار ہو جاتا مگر افسوس کہ ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ انصاف دینے کے بجائے درباری فیصلے نے مخدرۂ کائنات حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو گونا گوں مصفائب و آلام کی سنگلاخ وادی میں ڈال دیا۔ ہر آئے دن ایک نئی مصیبت سامنے آتی تھی۔ انتہائی حیرت ہے کہ فدک کے مقدمے میں حکمران خود ہی فریق بھی ہیں اور خود ہی فیصلے بھی کرتے ہیں کیا دنیا کی کوئی عدالت ایسے انصاف کی اجازت دیتی ہے؟ کلیجہ کانپ جاتا ہے ایسے فیصلے پر۔ اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر گرامیؐ قدر کی رحلت کے بہت قلیل عرصہ بعد سیدہ خاتونؑ جنت ان حکمرانوں سے اپنا حق لیے بغیر دار فانی سے دار البقا کی طرف رخصت ہو گئیں لیکن آج بھی یہ قرض حکمرانوں کی گردنوں پر ہے جو تاقیامت رہے گا۔
حضرت علی علیہ السلام نے فدک کیوں نہ واپس لیا؟
جواب: آپ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث پر عمل کرتے ہوئے فدک واپس نہ لیا چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
کیف انتم والائمۃ من بعدی یستأثرون بھذا الفیٔ قلت اما والذی بعثک بالحق اصنع سیفی علی عاتقی ثم اضرب بہ حتی القاک اوالحقک قال اولا ادُلک علی خیر من ذلک تصبر حتی تلقانی
تمہارا کیا حال ہو گا کہ میرے بعد ائمہ مال فئی کو ذاتی مال سمجھیں گے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور اس سے ماروں گا حتی کہ آپ سے آملوں تو آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتادوں؟ صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔
۱۔ سنن ابوداؤد کتاب السنۃ باب قتل الخوارج جلد۲ صفحہ ۲۹۹ حدیث ۴۷۵۹ طبع دہلی ۱۲۷۱ھ
۲۔ مسند احمد جلد۵ صفحہ ۱۷۹،۱۸۰، المطبعۃ المیمنیہ مصر ۱۳۱۳ھ۔
۳۔ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ والقضاء الفصل الثانی حدیث ۳۷۱۰، طبع مجتبائی دہلی
یہ حدیث ’’حسن‘‘ ہے ملاحظہ ہو:
سنن ابوداؤد ترجمہ و فوائد ابوعمار عمر فاروق سعیدی جلد۴ صفحہ۶۱۱،۶۱۲ طبع دارالسلام لاہور ۱۴۲۸ھ، مشکوٰۃ مترجم اردو کتاب الامارۃ والقضاء الفصل الثانی ناشر مکتبہ اسلامیہ لاہور کے فاضل محشی نے بھی اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
اعتراض: اس حدیث کی سند ’’خالد بن وھبان‘‘ راوی کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
الجواب: ابن حجر عسقلانی کا خالد بن وھبان کے اس بارے میں یہ کہنا کہ قال ابو حاتم مجھولٌ ’’ابو حاتم نے کہا کہ خالد مجہول ہے‘‘
چند وجوہ سے مخدوش اور ناقابل اعتبار ہے ۔ پہلی وجہ: یہ کہ اس قول کی سند ثابت نہیں ہے۔ نیز ابو حاتم نے بہت سے معروف راویوں کو مجہول کہدیا ہے۔ مثال کے طور پر حکم ابن عبد اللہ بصری کو انہوں نے مجہول کہا جب کہ اس سے چار ثقہ راویوں نے روایت لی ہے اور بعض نے خود اس کی توثیق کی ہے۔ لہٰذا ابو حاتم کے مجہول کہنے سے راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ان کے ہاں مجہول سے مراد مجہول العین نہیں بلکہ مجہول الوصف ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے الرفع و التکمیل لابی الحسنات محمد عبد الحئی لکھنوی صفحہ ۱۰۷ ۔ مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب)
دوسری وجہ: یہ کہ دو محدثین حافظ حاکم نیشا پوری متوی ۴۰۵ ھ اور محدث محمد بن حبان متوفی۳۵۴ھ نے خالد بن وھبان کی توثیق کی ہے چنانچہ امام حکم نیشا پوری نے اس کے بارے میں لکھا ہے:
خالدُ بْنُ وُھْبانَ لَمْ یُجْرَحْ فی رِوَایَاتِہ وَھُوَ تابِعیٌّ مَعْرُوْفٌ اِلاَّ اَنَّ الشَّیخَین لَم یُخَرِّ جَاھُ
خالد بن وھبان معروف تابعی ہیں ان کی روایات پر جرح نہیں کی گئی لیکن بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں لی۔
(مستدرک علی الصیححین جلد ۱ صفحہ۱۱۷ کتاب العلم طبع حیدر آباد دکن)
علامہ ذہبی نے اس کے ذیل میں لکھا ہے:
خالد لم یضعّف ’’خالد کو ضعیف نہیں کہا گیا‘‘
(تلخیص المستدرک جلد۱ ص۱۱۷)
علاوہ ازیں حافظ ابن حبان نے اسے اپنی کتاب ’’الثقات‘‘ میں ذکر کرکے کہا ہے۔
خالد بن وھبان، ابن خالۃ ابی ذر الغفاری یروی عن ابی ذرٍ، روی عنہ الناس
خالد بن وھبان حضرت ابوذر غفاریؓ کا خالہ زاد تھا یہ حضرت ابوذرؓ سے روایت کرتا ہے اس سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
۱۔ کتاب ثقات ابن حبان تیمی جلد۴ صفحہ ۲۰۷ طبع حیدر آباد دکن۔
۲۔ تاریخ الکبیر للبخاری جلد۲، القسم الاول صفحہ۱۷۸ ترجمہ نمبر۶۰۶ طبع حیدر آباد دکن ۱۹۶۳ء
بعض محدثین کے ہاں مجہول سے اگر راوی روایت کریں تو اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
وعند بعض المحدثین ترتفع جھالۃ الحال ایضاً بروایۃ الاثنین ولولم یوثق بشرط عدم تضعیف احد ایاہ ففی التعلیق الحسن قال السخاوی فی فتح المغیث قال الدارقطنی من روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت جھالتہ وثبتت عدالتہ۔
اور بعض محدثین کے نزدیک روای کی جہالت حال بھی اس سے دو راویوں کے روایت کرنے سے رفع ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی توثیق نہ ہو بشرطیکہ اسے کسی نے ضعیف نہ کہا ہو، ’’التعلیق الحسن‘‘ میں ہے کہ علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں کہا ہے کہ دارقطنی نے کہا جس سے دو راوی روایت کریں تو اس سے جہالت ختم ہو جاتی ہے اور اس کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے۔
(اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۰ طبع کراچی)
جب دو شخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا تو خالد بن وھبان سے بہت سے اشخاص روایت کرتے ہیں تو یہ مجہول کہاں ہوا۔ ظفر احمد عثمانی کے ہاں خیر القرون کے مجہول راوی کی روایت قابل قبول ہے جیسا کہ اعلاء السنن جلد۷ صفحہ۲۳۳ باب استحباب سجود الشکر میں لکھتے ہیں:
والمجھول من القرون الثلاثۃ مقبول عندنا
قرون ثلاثہ کے مجہول ہمارے نزدیک مقبول ہیں
یہی بات انہوں نے اپنی اسی کتاب جلد اول صفحہ ۳۰۹، ۳۱۸ جلد سوم صفحہ۱۶۱،۱۶۵ جلد ہفتم ص۱۷۴ جلد ہشتم صفحہ ۳۵،۸۷،۲۴۵،۲۷۰، قواعد علوم الحدیث صفحہ۲۰۸،۲۰۹ میں تحریر کی ہے۔
مجہول اس راوی کو کہا جاتا ہے جس سے بجز ایک راوی کے کسی دوسرے نے نہ روایت کی ہو اور نہ ہی کسی مستند ومعتمد محدث سے اس کی توثیق ثابت ہو۔ جبکہ اہل فن میں سے جب ایک بڑے واقف کار اور نہایت وسیع النظر محقق کی توثیق ثابت ہو جائے تو اس کے بعد وہ راوی مجہول نہیں رہتا۔ مگر یہاں تو حاکم نیشاپوری، ذہبی اور حافظ محمد ابن حبان تمیمی تینوں نے خالد بن وہبان کی توثیق کر دی ہے مزید یہ کہ اس سے لوگ روایت بھی کرتے ہین تو اس قاعدہ کی رو سے وہ مجہول کہاں ہوا۔ محض ابو حاتم کے بلا سند قول کی بنا پر مجہول کہہ دینا انصاف و دیانت کے بالکل خلاف ہے لہٰذا تصریحات بالا سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ ازروئے اصول حدیث خالد بن وہبان قابل اعتماد ہے۔ اس سے مروی حدیث صحیح ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
آفتاب حسین جوادی
جامعۃ الکوثر ۔ اسلام آباد