بابا کو روتے روتے جو زہرا گزر گئی
غُل پڑ گیا کہ بہت نبی کوچ کر گئی
فاقوں کے پنجے سہہ کے حضور پدر گئی
محبوب کبریا کی عزادار مرگئی
اٹھارویں برس نے یہ آفت دکھائی ہے
آل نبی کو چرخ نے لوٹا دہائی ہے
سبطین گھر میں آئے جو بیتاب و بیقرار
اسماء سے پوچھنے لگے اماں کا حالِ زار
وہ بولی نیند آگئی ہے شکر کردگار
کھانا تو جلد کھا لو کہ بھوکے ہو میں نثار
بولے کہ چین دے گا زمانہ تو کھائیں گے
اماں ہمیں کھلائیں گی کھانا تو کھائیں گے
یہ سُن کے بیقرار ہوئی وہ جگر فگار
چادر زمین پہ پھینک کے چلائی بار بار
بچے ہیں ان کو صبر دے اے میرے کردگار
اب وہ کھلانے والی کہاں تم پر میں نثار
پیارو تمھاری پالنے والی گزر گئی
کھاؤ گے کس کے ہاتھ سے اماں تو مر گئی