حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کے تین مبارزے
اگر ہم سقیفہ کی طولانی اور وسیع کہانی اور جناب ابوبکر کے انتخاب کے بارے میں بحث شروع کردیں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائیں گے اور بات بہت طویل ہوجائے گی، لیکن مختصر رودادیوں ہے کہ جب حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن اور کفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ایک تمام شدہ کام کے روبرو ہوئے انہوں نے دیکھا کہ جناب ابوبکر خلافت کے لئے منصوب کئے جاچکے ہیں اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کی بیعت بھی کرلی ہے۔
اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے ان طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا۔
پہلا: یہ کہ حضرت علی (ع) ایک سخت قدم اٹھائیں اور رسماً جناب ابوبکر کی حکومت کے خلاف اقدام کریں اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کائیں اور برانگیختہ کریں۔
دوسرا: جب وہ دیکھ چکے کہ کام ختم ہوچکا ہے تو اپنے شخصی مفاد اور مستقبل کی زندگی کے لئے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں اس صورت میں آپ کے شخصی منافع بھی محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت کے نزدیک قابل احترام میں قرار پائیں گے، لیکن دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ حضرت علی کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ اگر چاہتے کہ کھلم کھلا حکومت سے ٹکر لیں اور میدان مبارزہ میں وارد ہوجائیں تو ان کا یہ اقدام اسلام کے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام کے وہ دشمن جو کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممکن تھا کہ ”اسلام جو ابھی جوان ہوا ہے” کلی طور پر ختم کردیا جاتا اسی لئے حضرت علی (ع) نے اسلام کے اعلی اور ارفع منافع کو ترجیح دی اور سخت کاروائی کرنے سے گریز گیا۔
آپ کے دوسرے طریقے پر عمل کرنے میں بھی مصلحت نہ تھی کیونکہ جانتے تھے کہ اگر ابتداء ہی سے جناب ابوبکر کی بیعت کرلیں تو اس کی وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبکر کی کاروائی جو انجام پاچکی تھی اس کا تائید ہوجائے گی اور پیغمبر(ص) کی خلافت اور امامت کا مسئلہ اپنے حقیقی محور سے منحرف ہو جائے اور پیغمبر(ص) اور ان کی اپنی تمام تر زحمات اور فداکاریاں بالکل ختم ہوکر رہ جائیں گی۔ اس کے علاوہ جو کام بھی جناب ابوبکر اور عمر اپنے دور خلافت میں انجام دیں گے وہ پیغمبر(ص) اور دین کے حساب میں شمار کئے جائیں گے حالانکہ وہ دونوں معصوم نہیں ہیں اور ان سے خلاف شرع اعمال کا صادر ہونا بعید نہیں۔
تیسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طریقے میں مصلحت نہ دیکھی تو سوائے ایک معتدل روش کے انتخاب کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا کہ ایک وسیع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام کیا جائے تا کہ اسلام کو ختم ہونے اور متغیر ہونے سے نجات دلاسکیں گرچہ اس عاقلانہ اقدام کا نتیجہ مستقبل بعید میں ہی ظاہر ہوگا آپ کے اس اقدام اور مبارزے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
فہرست |