احادیث

حضرت فاطمہ زھرا ؑ مولا علیؑ کی نظر میں

(1)
قال الامام العلی علیہ السلام۔!
"السلام علیک یا رسول اللہ عنی ، وعن ابنتک النازلۃ فی جوارک، والسریعۃ اللحاق بک! قل یا رسول اللہ! عن صفیتک صبری و رق عنھاتجلدی الا ان لی فی التاسی بعظیم فرقتک و فادح مصیبتک، موضع تعز، فلقد و سدتک فی ملحودۃ قبرک و فاضت بین نحری و صدری نفسک’
یارسول اللہ آپ کو میری جانب سے اور آپ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپ سے جلد ملحق ہونے والی آپ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو ۔یارسول اللہ آپ کی برگزیدہ(بیٹی کی رحلت)سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا میری ہمت و توانا ئی نے ساتھ چھو ڑ دیا ۔لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کرلینے کے بعد مجھے اس مصیبت سے بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا ہو گا۔ جب کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپ کی روح نے پرواز کی جب آپ کا سر میری گردن اورسینے کے درمیان رکھا تھا ۔
(نہج البلاغہ خطبہ 200)


(2)
امام علیؑ سے جب سید الانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوچھتے ہیں کہ
"کیف وجدت اھلک؟”
” یاعلیؑ آپ نے فاطمہؑ کو کیسا پایا؟”
قال الامام العلی علیہ السلام
تو مولائے کائناتؑ عرض کرتے ہیں:
"نعم العون علی طاعۃ اللہ”
"فاطمہؑ اطاعتِ الہٰی میں بہترین معاون ہیں”۔
(تفسیر نور الثقلین، جلد4، ص57)


(3)
ایک اور مقام پر جب معاویہ نے مولا علیؑ کو خط لکھا تو اس کے خط کے جواب میں مولؑا نے ایک طویل خط لکھا جس میں یہ جملے بھی تھے:
"قال الامام العلی علیہ السلام!
"ومنا خیر نساء العالمین ومنکم حمالۃ الحطب۔۔۔”
"اے معاویہ! ہم میں عالمین کی عورتوں میں سے سب سے بہترین(فاطمہؑ) ہیں اور تم میں جہنم کا ایندھن اٹھانے والی”
(نہج البلاغہ، مکتوب 28)


(4)
جب جنابِ سیدہؑ کا وقتِ شہادت قریب آیا تو آپؑ نے مولا علیؑ سے عرض کی:
"یابن عم، ماعھدتنی کاذبۃولا خائنۃ ولا خالفتک منذ عاشرتنی”
"اے میرے چچازاد! آپؑ نے کبھی بھی مجھے جھوٹا یا خیانت کار نہیں پایا اور جب سے ہماری شادی ہوئی میں نے کبھی بھی آپؑ کے حکم کی مخالفت نہیں کی”
قال الامام العلی علیہ السلام
"معاذاللہ، انت اعلم باللہ وابر واتقیٰ واکرم واشد خوفاً من اللہ (من) ان اوبخک بمخالفتی، قد عز علی مفارقتک وفقدک”
"خدا کی پناہ، فاطمہؑ آپ اللہ کی معرفت میں بے مثال ہیں آپؑ نیکوکاری، تقویٰ اور کرامت بہت بلند ہیں اور آپ خوفِ خدا میں اس سے کہیں بلند ہے کہ میری مخالفت کریں۔ یقیناً آپ کی جدائی و فراق میرے لیے بہت گراں ہے۔
(عوالم العلوم والمعارف والاحوال من الآیات والاخبار والاقوال، جلد11، ص1081)


(5)
قال الامام العلی علیہ السلام:
"انا للہ وانا الیہ راجعون فلقد استرجعت الودیعۃ واخذت الرھینۃ! اما حزنی فسرمد اوما لیلی فمسھد الی ان یختار اللہ لی دارک التی انت بھا مقیم”
"اب یہ امانت پلٹائی گئی گروی رکھی ہو ئی چیزچھڑالی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی ۔یہاں تک کہ خداوند عالم مےرے لئے بھی اس گھر کو منتخب کرے جس میں آپ رونق افروز ہیں ۔”
( نہج البلاغہ خطبہ 200)


(6)
قال الامام العلی علیہ السلام
قال عليه السلام:” نشدتكم بالله هل فيكم أحد زوجته سيدة نساء العالمين غيري؟ قالوا: لا”
"کیا میرے علاوہ تم میں سے کوئی ہے جس کی زوجہ تمام عورتوں کی سردار ہو ۔ سب نے کہا :نہیں۔”
(الاحتجاج: ج۱، ص۱۷۱ و۱۹۵٫) 


(7)
قال الامام العلی علیہ السلام
"لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم والاحزان”
"جب میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے چہرہ اقدس کو دیکھتا تو حزن و ملال مجھ سے زائل ہو جاتا تھا۔”
(بحارالانوار،جلد۴۳، ص ۱۳۴)


(8)
قال الامام العلی علیہ السلام
"فوالله … لا اغضبتنی و لاعصت لی امرا”
"خدا کی قسم فاطمہ نے مجھے کبھی غضبناک نہ کیا اور کسی بھی کام میں میری بات سے سرپیچی کی۔”
(بحارالانوار،جلد۴۳، ص ۱۳۴)


(9)
قال الامام العلی علیہ السلام
"و ستنئک ابنتک بتضافر امتک علی ھضما فاحفھا السوال واستخبرھا الحال ھذا ولم یطل العھد ولم یخل منک الذکر۔”
"وہ وقت آگیا کہ آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں کہ کس ۱طرح آپ کی امت نے ان پر ظلم ڈھانے کے لئے ایکا کرلیا آپ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و وار دات دریافت کریں ۔یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں ۔حالانکہ آپ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں ۔”
(نہج البلاغہ)


(10)
قال الامام العلی علیہ السلام

"بِمَنِ العَزاءُ‌،یا بِنتَ مُحمَد؟ كُنتُ بِكِ اَتَعزی فَفیمَ العَزاء مِن بَعدِكِ؟
"کس کے ذریعہ میں اپنے غموں کو ہلکا کروں ائے بنت پیغمبر ص میری تسکین تو آپ سے ہوتی تھی آپکے بعد کون ہے جو میرے لئے آرام جاں قرار پائے؟۔”
(فاطمة الزهرا بهجة قلب مصطفی/ ص ۵۷۸/ به نقل از مجمع الروایة)


(11)
قال الامام العلی علیہ السلام
"قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي، وَ ضَعُفَ عَنْ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ تَجَلُّدِي،”
‘یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی و وفات پر میرا صبر کم ہو گیا اور میرے اند ر سیدۃ النساء العالمؑین کے فراق کے بعد اب تاب نہیں قوت برداشت نہیں۔”
(أمالي، شیخ طوسي، ص: ۱۱۰-۱۰۹، امالی شیخ مفید، ص: ۲۸۱-۲۸۳)


(12)
قال الامام العلی علیہ السلام
"السلام علیکما سلام مودع لا قال ولا سئم فان انصرف فلا عن ملالۃ و ان اقم فلا عن سوء ظن بما وعد اللہ الصابرین۔۔”
"آپ دونوں پر میرا اسلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف ہوتا ہے اب اگر میں (اس جگہ سے )پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہر ا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔”
(نہج البلاغہ)


 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button