حجلہ کی طرف
پیغمبر خدا ﷺ کی عورتوں نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو آراستہ کیا آپ کو عطر اور خوشبو لگائی، پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بلایا اور اپنے دائیں جانب بٹھایا اور جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے بائیں جانب بٹھایا، اس کے بعد دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کی پیشانی کو بوسہ دیا دلہن کا ہاتھ پکڑا اور داماد کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اچھی رفیقہ حیات ہے اور جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے فرمایا کہ علی (علیہ السلام) بہترین شوہر ہیں۔
اس کے بعد عورتوں کو حکم دیا کہ دولہا، دلہن کو خوشی اور جوش و خروش سے حجلہ کی طر ف لے جائیں لیکن اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں کہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اکبر کہتے ہوئے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور علی (علیہ السلام) کو حجلہ تک پہنچایا رسول خدا ﷺ بھی اس کے پیچھے آ پہنچے اور حجلہ میں وارد ہو گئے اور حکم دیا کہ پانی کا برتن حاضر کیا جائے تھوڑا سا پانی لے کر آپ ﷺ نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے جسم پر چھڑکا اور حکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منہ دھوئیں اس کے بعد ایک اور پانی کا برتن منگوایا اور اسے کچھ پانی حضرت علی (علیہ السلام) کے جسم پر چھڑکا اور حکم دیا کہ باقی پانی سے وضو کریں اور منہ دھوئیں اس کے بعد آپ ﷺ نے دلہن اور داماد کا بوسہ لیا اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔ اے خدا! اس شادی کو مبارک فرما اور ان سے پاک و پاکیزہ نسل وجود میں آئے۔
جب آپ نے چاہا کہ حجلہ سے باہر جائیں تو جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ لیا اور رونا شروع کر دیا، آپ ﷺ نے فرمایا میری پیاری بیٹی، میں نے بردبار ترین اور دانش مند ترین انسان سے تمہاری شادی کی ہے۔
اس کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حجلہ کے دروازہ پر آکر دروازے کے پلڑے کو پکڑ کر فرمایا کہ خدا تمہیں اور تمہاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے، میں تمہارے دوستوں کا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں کا دشمن، میں اب تم سے رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں خداوند عالم کے سپرد کرتا ہوں۔ حجلے کے دروازے کو بند کیا اور عورتوں سے فرمایا کہ سب اپنے گھروں کو چلی جائیں اور یہاں کوئی بھی نہ رہے۔ تمام عورتیں چلی گئیں۔
جب پیغمبر اسلام ﷺ نے باہر جانا چاہا تو دیکھا کہ ایک عورت وہاں باقی ہے پوچھا تم کون ہو مگر میں نے نہیں کہا کہ سب چلی جاؤ۔
اس نے عرض کی میں اسماء ہوں، آپ ﷺ نے تو فرمایا کہ سب چلی جائیں لیکن میں جانے سے معذور ہوں کیونکہ جب جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) اس جہاں سے کوچ فرما رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ وہ رور رہی ہیں، میں نے عرض کیا آپ بھی روتی ہیں؟ حالانکہ آپ دنیا کہ عورتوں سے بہترین عورت ہو، اور رسول خدا ﷺ کی بیوی ہو، اللہ تعالی نے تجھے بہشت کا وعدہ دیا ہے۔ آپ نے کہا میں اس لئے رو رہی ہوں کہ جانتی ہوں لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ شب زفاف اس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو جو اس کی محرم راز ہو اور اس کی ضروریات کو پورا کرے، میں دنیا سے جا رہی ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) شب زفاف کوئی محرم نہ رکھتی ہوگی اور اس کا کوئی مدد گار نہ ہوگا اس وقت میں نے خدیجہ (سلام اللہ علیہا) سے عرض کیا گہ اگر میں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے شب زفاف تک زندہ رہی تو آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس کے پاس رہوں گی اور اس سے مادری سلوک کروں گی۔ آپ ﷺ کے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا تجھے خدا کی قسم تم اسی غرض سے یہاں رہ گئی ہو؟ عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا تم اپنے وعدہ پر عمل کرو۔ (1)
—
فہرست |