پہلا اعتراض
فدک جناب زہراء (ع) کے قبضہ میں تھا تصرف میں تھا اس میں آپ سے گواہوں کا مطالبہ شریعت اسلامی کے قانوں کے خلاف تھا اس قسم کے موضوع میں جس کے قبضے میں مال ہو اس کا قول بغیر کسی گواہ اور بینہ کے قبول کرنا ہوتا ہے، اصل مطلب کی ذی الید کا قول بغیر گواہوں کے قبول ہوتا ہے، یہ فقہی کتب میں مسلم اور قابل تردید نہیں ہے باقی رہا کہ جناب فاطمہ (ع) ذی الید اور فدک پر قابض تھیں یہ کئی طریقے سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اول: جیسا کہ پہلے نقل ہوچکا ہے ابوسعید خدری، عطیہ اور کئی دوسرے افراد نے گواہی دی تھی کہ رسول خدا (ص) نے اس آیت کے مطابق ”وَ ات ذالقربی حقہ“ فدک جناب فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا، روایت میں اعطی کا لفظ وارد ہوا ہے بلکہ اس پر نص ہے کہ جناب رسول خدا (ص) نے اپنی زندگی میں فدک حتمی طور پر جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا اور وہ آپ کے قبضہ اور تصرف میں تھا۔
دوسرے: حضرت علی (ع) نے تصریح فرمائی ہے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے کہ ہاں ہمارے پاس اس میں سے کہ جس پر آسمان سایہ فگن ہے صرف فدک تھا، ایک گروہ نے اس پر بخل کیا اور دوسرا گروہ راضی ہوگیا اور اللہ ہی بہترین قضاوت کرنے والا ہے (1)۔
تیسرے: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ جب جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ فدک سے جناب فاطمہ (ع) کے آدمیوں اور کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے تو حضرت علی (ع) ان کے پاس گئے اور فرمایا اے ابوبکر، اس جائداد کو کہ جو رسول خدا (ص) نے فاطمہ (ع) کو بخش دی تھی اور ایک مدت تک جناب فاطمہ (ع) کا نمائندہ پر قابض رہا آپ نے کیوں لے لی ہے؟ (2)۔
رسول خدا(ص) کا فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دینا اور جناب فاطمہ (ع) کا اس پر قابض ہونا یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، اسی لئے جب عبداللہ بن ہارون الرشید کو مامون کی طرف سے حکم ملا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کی اولاد کو واپس کر دیا جائے تو اس نے ایک خط میں مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ رسول خدا (ص) نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو دیا تھا اور یہ بات آل رسول (ص) میں واضح اور معروف ہے اور کسی کو اس بارے میں شک نہیں ہے اب امیرالمومنین (مامون) نے مصلحت اسی میں دیکھی ہے کہ فدک فاطمہ (ع) کے وارثوں کو واپس کردیا جائے (3)۔
ان شواہد اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک جناب رسول خدا (ص) کے زمانے میں حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ (ع) کے قبضے میں تھا اس قسم کے موضوع میں گواہوں کا طلب کرنا اسلامی قضا اور شہادت کے قانوں کے خلاف ہے۔
—
[2] نورالثقلین، ج 4 ص 272۔
[3] فتوح البلدان، ص 46۔
فہرست |