فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا دیدار
پیغمبر اکرم ﷺ زفاف کی رات کی صبح کو دودھ برتن میں لئے ہوئے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے حجلہ میں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس کو پیو، اس کے بعد حضرت علی (سلام اللہ علیہا) سے فرمایا تمہارے چچا کہ بیٹا تم پر قربان ہو تم بھی پیو۔ (1)
حضرت علی (علیہ السلام) سے پوچھا تم نے اپنی زوجہ کو کیسا پایا؟ عرض کیا اللہ کی بندگی میں بہترین مددگار۔ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے پوچھا کہ تمہار شوہر کیسے ہیں؟ عرض کیا بہترین شوہر۔ (2)
پیغمبر اکرم ﷺ اس کے بعد چار دن تک جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر تشریف نہیں لے گئے اور جب چوتھے دن جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے حجلہ میں تشریف لے گئے تو آپ سے خلوت میں پوچھا، تم نے اپنے شوہر کیسا پایا؟ عرض کی ابّا جان مردوں میں سے بہترین شوہر اللہ نے مجھے عطا کیا، لیکن قریش کی عورتیں میرے دیدار کے لئے آئیں تو بجائے مبارک باد دینے کے میرے دل پر غم کی گرہ چھوڑ گئیں اور کہنے لگیں تمہارے باپ نے تمہارا نکاح ایک فقیر و تہی دست انسان سے کیا ہے، حالانکہ مال دار اور ثروت مند مرد تمہارے خواستگار تھے۔ جناب رسول خدا ﷺ نے اپنی بیٹی کی تسلی دی اور فرمایا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقیر نہیں ہیں۔ خدا کی قسم! زمین کے خزانے کی چاہیاں میرے سامنے پیش کی گئیں لیکن میں نے اخروی نعمات کو دنیا کے مال اور ثروت پر ترجیح دی، عزیزم میں نے تیرے لئے ایک ایسا شوہر منتخب کیا ہے جس نے تمام لوگوں سے پہلے اسلام کا اظہار کیا اور جو علم و حلم اور عقل کے لحاظ سے تمام لوگوں پر برتری رکھتا ہے۔ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تیرے شوہر کو چنا ہے۔ بہت بہترین شوہر والی ہو اس کی قدر کو سمجھو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کو بلایا اور فرمایا کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی اور مہربانی سے پیش آنا، تمہیں معلوم ہونا چاہیئے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو شخص اسے اذیت دے گا وہ مجھے اذیت دے گا اور جو اسے خوشنود کرے گا، وہ مجھے خوشنود کرے گا، میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ (3)
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا عقد ماہ مبارک میں ہوا، پہلی یا چھ ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ (4)
حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے تھوڑی مدت اپنے گھر میں جو جناب رسول خدا ﷺ کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگی بسر کی، لیکن یہ فاصلہ جناب رسول خدا ﷺ پر دشوار تھا ایک دن آپ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اپنے نزدیک بلا لوں، آپ نے عرض کی حارثہ بن نعمانؓ سے بات کیجئے کہ وہ اپنا مکان ہمیں دیدے، آپ نے فرمایا حارثہ بن نعمان اپنی منازل ہمارے لئے خالی کر کے خود بہت دور چلا گیا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتی ہے۔ جناب حارثہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ جناب رسول خدا ﷺ کی خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں اور میرا مال آپ کے اختیار میں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو میرے گھر منتقل کر دیں۔ جناب رسول خدا ﷺ نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو حارثہ کے مکان میں منتقل کر دیا۔ (5)
—
[2] بحارالانوار۔ ج 43 ص 117۔
[3] جو مطالب حضرت علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی میں ذکر ہوئے ہیں انہیں ان کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کشف الغمہ ج 1۔ مناقب شہر ابن آشوب ج3۔ تذکرة الخواص۔ ذخائر العقبی ۔ دلائل الامامة۔ سیرة ابن ہشام۔ مناقب خوارزمی ینابیع المودة۔ بحارالانوار، ج 43۔ ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) ۔ اعلام الوری مجمع الزوائر، ج 9۔
[4] بحارالانوار، ج 43 ص 136۔
[5] طبقات ابن سعد، ج 8 بخش 1 ص 14۔
فہرست |