بحث اور استدلال
جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ۔ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (علیہ السلام) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا ﷺ نے میرے بارے میں فرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ”و آت ذی القربی حقہ” نازل ہوئی تو رسول خدا ﷺ نے فدک فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو دے دیا تھا۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہو گئے کہ فدک جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کو دے دی۔
اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کر دیئے ہیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا۔ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں۔
ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی کہ رسول خدا ﷺ فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے (1)۔
ایک دن حضرت علی (علیہ السلام) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا ﷺ نے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو دیا تھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیا انہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے۔ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ (سلام اللہ علیہا) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سکوت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہا یا علی ایسی باتیں چھوڑو (2)۔
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے۔ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا (3)۔
قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آ پہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا۔
—
[2] احتجاج طبرسی، ج 1 ص 121۔ کشف الغمہ ج 2 ص 104۔
[3] نہج البلاغہ، ج 3 ص 45۔
| فہرست |