حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کی عصمت
لغت میں لفظ معصوم کے معنی محفوظ اور ممنوع کے ہیں۔ اصطلاح میں معصوم اس شخص کو کہاجاتا ہے جو غلطی اور اشتباہ اور گناہوں سے امان میں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے کہتے ہیں کہ اس کی بصیرت کی آنکھ ایسی ہو کہ عالم کے حقائق کا مشاہدہ کر رہی ہو اور اس ارتباط اور اتصال کی وجہ سے جو اسے عالم ملکوت سے ہے اور غیبی تائیدات سے گناہ اور نافرمانی نہ کرے اور اس کے وجود مقدس میں غلطی اور اشتباہ اور سرکشی اور عصیاں گزر نہ کرسکے۔ عصمت کا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلی اور نقلی اور براہین سے پیغمبروں کے لئے تو ثابت ہوچکا ہے۔
شیعہ امامیہ کاعقیدہ ہے کہ ہمارے پیغمبر(ص) کے حقیقی جانشین و خلفاء اور بارہ اماموں کو بھی معصوم ہونا چاہیئے اور ان کے پاس ان بزرگوں کی عصمت کے لئے دلائل اور براہین بھی موجود ہیں۔ اگر ہم ان کا ذکر یہاں شروع کردیں تو اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے۔
شیعہ امامیہ پیغمبروں کی عصمت کے علاوہ حضرت زہرا (ع) کو بھی گناہوں اور نافرمانی سے معصوم جانتے ہیں اور آپ کی عصمت کے ثبوت کے لئے بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
پہلی دلیل اس آیت کے تمسک کر کے آپ کی عصمت کو ثابت کیاجاسکتا ہے۔
[انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا] (1)آیت کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے۔ ”خدا چاہتا ہے کہ ناپاکی اور آلودگی کو تم اہلبیت سے دور کردے اورکاملاً تمہیں پاکیزہ اور طاہر کردے۔
شیعہ اور سنی نے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر(ص) اور علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کندھے پر سیاہ پشم کا بنا ہوا کپڑا ڈالے گھر س باہر نکلے اس کے بعد حسن اور حسین (ع) اور فاطمہ (ع) اور علی (ع) کو اس کپڑے اور چادر کے درمیان لیا اور فرمایا:
[انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت الخ] (2)
جناب ام سلمہ فرماتی ہیں ایک دن جناب فاطمہ (ع) ایک ظرف میں حریر (ایک کا حلوہ ہے) لے کر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو بھی بلاؤ، جب یہ تمام حضرات رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غذا کھا نے میں مشغول ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی، اس کے بعد پیغمبر(ص) نے خیبری چادر ان کے سرپر ڈالی اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے میرے خدا یہ میرے اہل بیت ہیں، آلودگی کو ان سے زائل کردے اورپاکیزہ بنادے (3)۔
عمر ابن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ”انما یريد الله” جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی، پس پیغمبر اکرم(ص) نے علی (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسین علیہم السلام کو اپنے پاس بلایا اور چادر ان کے سرپر ڈالی اور فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) میں بھی ان کے ساتھ ہوں یعنی اہلبیت میں داخل ہوں آپ نے جواب دیا کہ تم بھی اچھائی پر ہو (4)۔
واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لے گئے علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو زانو پر، اس کے بعد ان کے سروں پر چادر ڈال کر فرمایا، اے میرے خدا، یہ میرے اہلبیت ہیں آلودگی کو ان سے زائل کردے (5)۔
خلاصہ رسول خدا(ص) کے اصحاب کی ایک جماعت جیسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن یسار، ابی الحمرائ، انس بن مالک، سعد ابن ابی وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علی، علی بن ابیطالب، ابوسعید خدری، زینب، ابن عباس اور ان کے علاوہ ایک اور جماعت نے اسی سے ملتی جلتی روایات اس آیت کی شان نزول میں نقل کی ہیں۔ شیعہ اور سنی علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے درالمنثور میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودة اور دوسرے سنی علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) اس آیت کے نازل ہوئے کے بعد متعدد مقامات پر اور ان میں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ کے گھر اپنی عبا علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کے سرپر ڈالتے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا جو اشخاص میری عبا کے نیچے موجود ہیں یہی میرے اہلبیت ہیں، آلودگی کو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم کا عمل اس لئے انجام دیتے تھے تا کہ اہلبیت (ع) کی شناخت ہوجائے اور یہ موضوع پایہ ثبوت کو پہنچ جائے یہاں تک کہ چھ ماہ اوربعض روایات کی بنا پرسات اور بعض دوسری روایت کی بناپر آٹھ مہینہ تک آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ صبح کے وقت جب نماز کے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے(6)۔
رسول خدا (ص) ان موارد اورمواقع پر اپنی چادر علی (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسین (ع) علیہم السلام کے سر پر ڈالتے اور یہی آیت تلاوت فرماتے تا کہ اس سے غلط مطلب لینے کی کسی کو گنجائشے نہ رہے کہ کوئی دعوی کرے کہ میں بھی اہلبیت کا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ جب ام سلمہ نے عبا کے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان کے ہاتھ سے کھینچ لی اور فرمایا کہ تم نیکی پر ہو۔ ایک زمانے تک صبح کے وقت آپ نماز کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ (ع) کے گھر میں رہنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرماتے تا کہ لوگ سن لیں اور اس کے بعد انکار نہ کرسکیں۔ علی (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) بھی متعدد مقامات پر اور صحابہ کے روبرو فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے حق میںنازل ہوئی ہے۔ اور کسی وقت بھی اس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔
اس آیت کے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا کہ تم اہلبیت کو آلودگی اور رجس سے منزہ قرار دے۔ اس رجس سے مراد ظاہری نجاست نہیں ہے کیونکہ اس کا دور کرنا اہلبیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان مکلف ہیں کہ وہ اپنے آپ سے ظاہری نجاست کو دور رکھیں اور اس سے پرہیز کریں، اس کے علاوہ اگر ظاہری نجاست مراد ہوتی تو اس کے لئے اتنے اہتمام اور تکلف کی ضرور نہ تھی اور نہ ہی پیغمبر کو دعا کی ضرورت تھی۔ مطلب اتنا مہم نہیں تھا کہ ام سلمہ اس کا مصداق ہونے کی خواہش کرتیں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا کہ مراد اس آیت میں ظاہری نجاست اور آلودگی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اور مقصود باطنی آلودگی یعنی گناہ اور اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا نے چاہا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اہلبیت گناہ سے پاکیزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھی ارادہ تشریعی نہیں ہے، یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ خداتعالی نے اہلبیت سے۔ طلب کیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو گناہ اورمعصیت سے پاک کریں کیونکہ ایسا ارادہ بھی اہلبیت کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتا، کیوں کہ خداوند عالم تمام لوگوں سے یہی چاہتا ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں بلکہ اس ارادے سے مراد اس آیت میں تکوینی ارادہ ہے یعنی خدا نے اس طرح مقدر کردیا ہے کہ اہلبیت کا دامن معصیت اور گناہ سے پاک اور منزہ ہو حالانکہ تمام بشر مختار ہیں کہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں کو ترک کریں۔
پیغمبر(ص) نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے یعنی گناہوں سے معصوم ہونا۔ ابن عباس نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مخلوق کی دو قسم کی ہیں اور مجھے بہترین قسم میں قرار دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
[اصحاب الیمین ما اصحاب الیمین و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال]۔میں اصحاب یمین سے اوران سے بہترین میں سے ہوں، اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کی تین قسمیں کی ہیں اور مجھے ان میں سے بہترین قسم میں قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
[فاصحاب المیمنة ما اصحاب المیمنة و اصحاب المشئمة ما اصحاب المشئمة و السابقون السابقون]میں سابقین میں سے ہوں اور ان سے بہترین ہوں۔ پھر ان تین قسموں کو قبیلوں میں تقسیم کیا۔ اور مجھے بہترین میں قرار دیا۔ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
[و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم]پس میں حضرت آدم (ع) کی اولاد میں سے پرہیزگاروں اور معظم ترین لوگوں میں سے ہوں، لیکن اس پر میں فخر نہیں کرتا پھر اللہ تعالی نے ان قبائل کو خاندانوں میں تقسیم کیا ہے، اور مجھے بہترین خاندان میں قرار دیا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
[انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیراً]پس میں اور میرے اہلبیت گناہوں اور معصیت سے معصوم ہیں (7)۔
اعتراض
کہا گیا ہے کہ یہ آیت عصمت پر دلالت نہیں کرتی کیوں کہ اس سے پہلی آیت اور اس سے بعد کی آیات تمام کی تمام پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور انہی کوخطاب کیا گیا ہے۔
اس قرینے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت بھی پیغمبر(ص) کی ازدواج کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہی اس آیت میں اس کی مخاطب ہیں اور اگر اس آیت کی دلالت عصمت پر مان لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ پیغمبر(ص) کی ازدواج گناہوں سے معصوم ہیں حالانکہ اس مطلب کو کسی نے نہیں کہا اور نہ ہی یہ مطلب کہا جاسکتا ہے لہذا کہنا ہوگا کہ اصلاً یہ آیت عصمت پر دلالت ہی نہیں کرتی نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازدواج کے مورد میں اور نہ ہی اہلبیت کے مورد میں۔
اعتراض کا جواب
علامہ سید عبدالحسین شرف الدین نے اس اشکال کونقل کر کے اس کا جواب دیا ہے۔ ہم یہاں وہ جواب نقل کر رہے ہیں۔
پہلا جواب:
یہ ہے کہ جو احتمال اعتراض میں دیا گیا ہے وہ نص اور صریح روایات کے خلاف ہے اور یہ ایک ایسا اجتہاد ہے کہ جو نصوص اور روایات کے خلاف ہے کیوں کہ روایات حد تواتر تک موجود ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرات علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت انہیں سے مخصوص ہے۔ یہان تک کہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا کہ چادر کے اندر داخل ہوجائیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سختی سے روک دیا۔
دوسرا جواب:
اگر یہ آیت پیغمبر(ص) کی ازواج کے حق میں نازل ہوتی تو پھر چاہیئے تھا کہ صیغہ مونث حاضر کا استعمال کیا جاتا اور یوں آیت ہوتی انما یرید اللہ لیذہب عنکم کی جگہ عنکنَّ ہوتا اور جمع مذکر کا صیغہ جو موجودہ آیت میں ہے نہ لایا جاتا۔
تیسرا جواب:
عربی فصیح زبان میںعربوں کے درمیان یہ عام رواج ہے کہ وہ ایک مطلب کے درمیان جملہ معترضہ لایا کرتے ہیں، لہذا کیا حرج ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت کو جو اہلبیت سے مخصوص ہے ازواج پیغمبر(ص) کے ذکر کے درمیان ذکرکردیا ہو تا کہ اہلبیت کے موضوع کی اہمیت واضح ہوجائے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلانی ہو کہ چونکہ پیغمبر(ص) کے اہلبیت گناہوں سے معصوم ہیں کسی کو اس مقام کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات بھی اس مقام کے حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔
چوتھا جواب:
باوجودیکہ قرآن مجید میںتحریف واقع نہیں ہوئی اور قرآن مجید کی آیات میں کمی زیادتی نہیں ہوئی لیکن یہ مطلب تمام کے نزدیک مسلم نہیں کہ قرآن کی تدوین اور جمع کرنے کے وقت ان تمام آیات اور سورتوں کو بعینہ ویسے ہی رکھا گیا ہے جس ترتیب سے نازل ہوئی تھیں مثلاً کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کو جو اہلبیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک علیحدہ جگہ نازل ہوئی ہو لیکن قرآن جمع کرنے کے وقت اس کو ان آیات کے درمیان رکھ دیا ہو جو پیغمبر(ص) کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی ہیں (8)۔
دوسری دلیل
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) خدا تیرے غضبناک ہونے پرغضبناک ہوتا ہے اور تیری خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے (9)۔
اس حدیث کو شیعہ اور سنیوں نے نقل کیا ہے اور اس حدیث کو دونوں قبول کرتے ہیں، اس حدیث کے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناک ہوں گی خدا بھی غضبناک ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگی تو خدا بھی راضی اور خوشنود ہوگا اور یہ امر مسلم ہے کہ خدا واقع اور حق کے مطابق راضی اور غضبناک ہوتا ہے اور کبھی بھی برے یا خلاف حق کام کرنے پر راضی اور خوشنود نہیں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضی اور خوشنود ہی کیوں نہ ہوں اور کبھی بھی اچھے کاموں اور حق کے مطابق اعمال پر غضب ناک نہیں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناک ہی کیوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چیزوں کا لازمہ یہ ہوگا کہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، کیوں کہ اگر معصوم ہوئیں تو آپ کا غضب اور رضا شریعت کے میزان کے مطابق ہوگی اور کبھی بھی اللہ تعالی کی رضا کے خلاف راضی نہ ہوں گی اور کبھی بھی نیک اور حق کاموں سے غضبناک نہ ہوں گی اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو تو خدا خوشنود ہوتا ہے۔
بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ کے حق میں جائز قرار دیا جائے تو بطور کلی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فاطمہ (ع) کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب کو ایک مثال دیگر واضح کردوں فرض کریں کہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان کے حق میں اشتباہ اور خطا ممکن ہو تو اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ اشتباہ یا خواہشات نفسانی کی وجہ سے حق اور واقع کے خلاف کسی سے کوئی چیز طلب کریں اور اس کی وجہ سے ان میں نزاع اور کشمکش کی نوبت پہنچ جائے اور آپ کامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ کر رہی ہیں راضی نہ ہو اور آپ کو مغلوب کردے تو ممکن ہے کہ آپ اس صورت میں غضب ناک ہوجائیں اور عدم رضایت کا اظہار کردیں تو کیا اس فرض اور صورت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ چونکہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناک ہیں لہذا اللہ بھی اس پر غضبناک ہے گر چہ حق اسی مد مقابل کے ساتھ ہے۔ ایسا بالکل نہیںہوسکتا اور نہ ہی ایسے برے کام کو اللہ کی طرف نسبت دی جائیگی ہے۔
ایک دوسری روایت سے بھی جناب فاطمہ (ع) کی عصمت کو ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو بھی اسے غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا(10)۔
یہ حدیث بھی شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حدیث کو حتی کہ جناب عمر اور ابوبکر بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ سابقہ بیان کو جب اس حدیث کے پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے بھی حضرت زہرا(ع) کی عصمت پر دلالت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ پیغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانی سے معصوم ہیں آپ اس کام پہ غضبناک ہوتے ہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض ہوتا ہے اور اس چیز سے راضی ہوتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اس صورت میں کہاجاسکتا ہے کہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا کا احتمال ان کے حق میں جائز نہیں۔
ایک اور دلیل جو حضرت زہرا (ع) کی عصمت کو ثابت کرتی ہے، وہ حدیث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا نام زہراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ کے وجود میں شر اور برائی کو کوئی راستہ نہیں ہے (11)۔
—
[2] ینابیع المودہ، ص 124۔ درالمنثور، ج 5 ص 198۔
[3] ینابیع المودہ، ص 125 و درالمنثور، ج 5 ص 198۔
[4] ینابیع المودہ، ص 125۔
[5] ینابیع المودہ، ص 125 و درالمنثور ج 5 ص 199۔
[6] کشف الغمہ،ج 2 ص 83، و در المنثور ج 5 ص 199، و فصول المتمہ ص 8۔
[7] درالمنثور، ج 1 ص 199۔
[8] کتاب کلمة الغراء فی تفصیل الزہرائ۔ مولفہ سید عبدالحسین شرف الدین، ص 212۔
[9] ینابیع المودہ، ص 203 اور مجمع الزوائد، ج 9 ص 203۔
[10] صحیح بخاری، ج 2 ص 302۔
[11] کشف الغمہ، ج 2 ص 89۔
فہرست |