زندگی نامہ

آپ (سلام اللہ علیہا) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں

جناب فاطمہ (ع) کی بیماری شدید ہوگئی اور آپ کی حالت خطرناک ہوگئی حضرت علی (ع) ضروری کاموں کے علاوہ آپ کے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے۔ جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمار داری کیا کرتی تھیں۔ جناب امام حسن اور امام حسین اور زینب و ام کلثوم ماں کی یہ حالت دیکھ کر آپ سے بہت کم جدا ہوا کرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) کبھی مرض کی شدت سے بیہوش ہوجایا کرتی تھیں، کبھی آنکھیں کھولتیں اور اپنے عزیز فرزندوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتیں۔

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار کے وقت آنکھیں کھولیں اور ایک تند نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یا رسول اللہ (ص) اے میرے اللہ مجھے اپنے پیغمبر(ص) کے ساتھ محشور کر خدایا مجھے اپنی بہشت اور اپنے جوار میں سکونت عنایت فرما اس وقت حاضرین سے فرمایا اب فرشتگان خدا اور جبرئیل موجود ہیں میرے بابا بھی حاضر ہیں اور مجھ سے فرما رہے ہیں کہ میرے پاس جلدی آو کہ یہاں تمہارے لئے بہتر ہے (1)۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات کی رات فرمایا کہ اے ابن عم ابھی جبرئیل مجھے اسلام کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے کہ عنقریب تم بہشت میں والد سے ملاقات کروگی اس کے بعد آپ نے فرمایا و علیکم السلام۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے ابن عم ابھی میکائیل نازل ہوئے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے اس کے بعد فرمایا و علیکم السلام۔ اس وقت آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل آگئے ہیں اور میری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہیں، اس وقت عزرائیل سے فرمایا کہ میری روح قبض کرلو لیکن نرمی سے۔ آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا خدایا تیری طرف آوں نہ آ گ کی طرف، یہ کلمات آپ نے فرمائے اور اپنی نازنین آنکھوں کو بند کرلیا اور اور جان کو خالق جان کے سپرد کردیا۔

اسماء بنت عمیس نے جناب زہراء (ع) کی وفات کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ جب جناب فاطمہ (ع) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے والد کی وفات کے وقت جبرئیل (ع) کچھ کا فور لے کرئے تھے آپ (ص) نے اسے تین حصّوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصّہ اپنے لئے رکھا تھا ایک حصّہ حضرت علی (ع) کے لئے اور ایک حصّہ مجھے دیا تھا اور میں نے اسے فلاں جگہ رکھا ہے اب مجھے اس کی ضرورت ہے اسے لے آؤ۔ جناب اسماء وہ کافور لے آئیں۔ آپ نے اس کے بعد۔ آپ نے غسل کیا اور وضو کیا اور اسماء سے فرمایا میرے نماز کے کپڑے لے آؤ اور خوشبو بھی لے آؤ۔

جناب اسماء نے لباس حاضر کیا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائی اور قبلہ رخ ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور اسماء سے فرمایا کہ آرام کرتی ہوں تھوڑی دیر۔۔۔ بعد مجھے آواز دینا اگر میں نے جواب نہ دیا تو سمجھ لینا کہ میں دنیا سے رخصت ہوگئی ہوں اور علی (ع) کو بہت جلدی اطلاع دے دینا، اسماء کہتی ہیں کہ میں تھوڑی دیر صبر کیا اور پھر میں کمرے کے دروازے پر آئی جناب فاطمہ (ع) کو آواز دی لیکن جواب نہ سنا تب میں نے لباس کو آپ کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا آپ د نیا سے گزر گئی ہیں۔ میں آپ کے جنازے پر گرگئی آپ کو بوسہ دیا اور روئی اچانک امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) وارد ہوگئے اپنی والدہ کی حالت پوچھی اور کہا کہ اس وقت ہماری ماں کے سونے کا وقت نہیں ہے میں نے عرض کی اے میرے عزیز و تمہاری ماں دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ماں کے جنازے پر گرگئے بوسہ دیتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) کہتے تھے اماں مجھ سے بات کیجئے، امام حسین (ع) کہتے تھے اماں جان میں تیرا حسین (ع) ہوں قبل اس کے میری روح پرواز کرجائے مجھ سے بات کیئجے، جناب زہرا (ع) کے یتیم مسجد کی طرف دوڑے تا کہ باپ کو ماں کی موت کی خبردیں، جب جناب زہراء (ع) کی موت کی خبر علی (ع) کی ملی تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بیتاب ہوکر فرمایا۔ پیغمبر(ص) کی دختر آپ میرے لئے سکون کا باعث تھیں، اب آپ کے بعد کس سے سکون حاصل کروں گا؟ (1)

[1] دلائل الامامہ ص 44۔
[2] بحار الانوار، ج 43 ص 186۔

فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button