جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی آرزو
خلقت کے اسرار میں سے ایک راز یہ ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اور لڑکا ہوتا تا کہ اسے اپنی حسب منشاء تربیت کرے اور اپنی یادگار چھوڑ جائے۔ انسان فرزند کو اپنے وجود کا باقی رہنا شمار کرتا ہے اور مرنے کے وقت آپ کو فناء اور ختم ہو جانا نہیں جانتا، لیکن وہ آدمی جس کا کوئی فرزند نہ ہو تو وہ اپنی زندگی کو مختصر اور موت کے آ پہنچنے سے اپنے آپ کو ختم سمجھتا ہے شاید پیدائش کو یوں سلسلہ نسل انسانی کی بقاء کا وسیلہ قرار دیا گیا ہوتا کہ نسل انسانی نابودی اور منقرض ہوجانے سے محفوظ رہ جائے۔
جی ہاں پیغمبر (ص) اور جناب خدیجہ بھی اس قسم کی تمنا رکھتے تھے، وہ خدیجہ جو خداپرستی اور بشریت کی نجات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتی تھیں اور پیغمبر کے مقدس ہدف کو آگے بڑھانے میں مال اور دولت اور رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی قطع تعلقی سے گریز نہ کرتی تھی، بغیر کسی قید و شرط کے جناب رسول خدا (ص) کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرچکی تھیں یقینا ان کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صاحب فرزند ہوں تا کہ وہ دین اسلام کا حامی اور اس کی اشاعت اور ترویج میں اور اسے آنحضرت کے عالی ہدف تک پہنچانے میں کوشاں ہو۔
پیغمبر اسلام(ص) جانتے تھے کہ انسان کے لئے موت یقینی ہے آپ تھوڑی اور مختصر مدت میں اتنے بڑے ہدف کو بطور کامل جاری نہیں کرسکتے اور تمام جہان کے بشر کو گمراہی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے فطری بات ہے کہ آپ کا دل بھی چاہتا ہو گا کہ ایسے ایثار کرنے والے افراد جو ان کی اپنی نسل سے ہوں موجود ہو جائیں۔
جناب محمد مصطفی (ص) اور جناب خدیجہ اس قسم کی ضرور تمنا اور خواہش رکھتے ہوں گے، لیکن افسوس کہ جو لڑکے آپ کے پیدا ہوئے تھے کہ جنہیں عبداللہ اور قاسم کے نام سے موسوم کیا گیا تھا وہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے جتنا دکھ جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کو ان کی وفات سے ہوا تھا اتنا ہی ان کے دشمن خوش اور شاد ہوئے تھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی نسل کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے، کبھی دشمن آپ کو ابتر یعنی لاولد کے نام سے پکارتے تھے۔
جب آپ کے فرزند عبداللہ فوت ہوئے تو عاص بن وائل بجائے اس کے کہ آپ کو آپ کے فرزند کی موت پر تسلی دیتا مجمع عام میں آپ کو ابتر اور لاولد کہتا تھا اور کہتا تھا کہ جب محمد (ص) مرجائیں گے تو ان کا کوئی وارث نہ ہوگا۔ وہ زبان کے زخم سے جناب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جناب خدیجہ کا دل زخمی کیا کرتا تھا۔ (1)
[1] سیرہ ابن ہشام ج 2 ص 34، تفسیر جوامع الجامع مولفہ طبرسی ص 529| فہرست |