زندگی نامہ

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس درہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں۔

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا۔ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے۔

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں۔

جناب عمر نے جواب دیا ۔ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں۔ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھر چکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں۔ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تاکہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کر دیا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جا کر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول (ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی۔

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب خاتون سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں۔

اے رسول خدا (ص) کے اصحاب مجھے بعض نادانوں کی داستان پہنچی ہے حالانکہ تم اس کے سزاوار ہو کہ رسول خدا (ص) کے دستور کی پیروی کرو تم نے رسول (ص) کو جگہ دی تھی اور مدد کی تھی اسی لئے سزاوار ہے کہ تم رسول خدا (ص) کے دستور سے انحراف نہ کرو۔ اس کے باوجود کل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو کہ میں کسی کے راز کو فاش نہیں کروں گا اور ہاتھ اور زبان سے کسی کو اذیت نہیں دوں گا مگر اسے جو سزا کا مستحق ہوگا (1)۔

[1] دلائل الامامہ، ص 38۔

فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button