زندگی نامہ

خیبر کے خمس کا بقایا

7 ہجری کو اسلام کی سپاہ نے خیبر کو فتح کیا اس کے فتح کرنے میں جنگ اور جہاد کیا گیا اسی وجہ سے یہودیوں کا مال اور اراضی مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوئی۔

رسول خدا (ص) نے قانون اسلام کے مطابق غنائم خیبر کو تقسیم کیا، آپ نے منقولہ اموال کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا چار حصّے فوج میں تقسیم کردیئے اور ایک حصہ خمس کا ان مصارف کے لئے مخصوص کیا کہ جسے قرآن معین کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

[و اعلموا انما غنمتم من شیئً فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل] (1)

یعنی جان لو کہ جو بھی تم غنیمت لو اس کا خمس خدا اور پیغمبر(ص) اور پیغمبر(ص) کے رشتہ دار اور ذوی القربی اور اس کے یتیم اور تنگ دست اور ابن سبیل کے لئے ہے۔ اس آیت اور دیگر احادیث کے رو سے غنیمت کا خمس چھ جگہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف اسی جگہ خرچ کرنا ہوگا۔

جناب رسول خدا (ص) خمس کو علیحدہ رکھ دیتے تھے اور بنی ہاشم کے ذوالقربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کی ضروریات زندگی پورا کیا کرتے تھے اور باقی کو اپنے ذاتی مصارف اور خدائی کاموں پر خرچ کیا کرتے تھے آپ نے خیبر کے خمس کو بھی انہیں مصارف کے لئے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا اس کی کچھ مقدار کو آپ نے اپنی بیویوں میں تقسیم کردیا تھا مثلاً جناب عائشہ کو خرما اور گندم اور جو کے دو وسق وزن عنایت فرمائے۔ کچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوی القربی میں تقسیم کیا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) کو اور ایک سو وسق حضرت علی (ع) کو عطا فرمائے (2)۔

اور خیبر کی زمین کو دو حصوں میں تقسیم کی ایک حصہ زمین کا ان مصارف کے لئے جو حکومت کو در پیش ہوا کرتے ہیں مخصوص کردیا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام کی ضروریات زندگی کے لئے مخصوص کردیا اور پھر ان تمام زمینوں کو یہودیوں کو اس شرط پر واپس کردیا کہ وہ اس میں کاشت کریں اور اس کی آمدنی کا ایک معین حصّہ پیغمبر(ص) کو دیا کریں۔ آپ اس حصہ کو وہیں خرچ کرتے تھے کہ جسے خداوند عالم نے معین کیا (3)۔

جب رسول خدا (ص) کی وفات ہوگئی تو جناب ابوبکر نے خیبر کے تمام موجود غنائم پر قبضہ کرلیا، یہاں تک کہ وہ خمس جو خدا اور اس کے رسول (ص) اور بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں، مسکینوں اور ابن سبیل کا حصہ تھا اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ اور بنی ہاشم کو خمس سے محروم کر دیا۔

حسن بن محمد بن علی (ع) ابن ابیطالب کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے ذوی القربی کا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنی ہاشم کو نہیں دیا اور اس کو کار خیر میں جیسے اسلحہ اور زرہ و غیرہ کی خریداری پر خرچ کرتے تھے (4)۔

عروہ کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فدک اور سہم ذی القربی کا ان سے مطالبہ کیا۔ جناب ابوبکر نے انہیں کوئی چیز نہ دی اور اسے اللہ کے اموال میں داخل کردیا (5)۔

الحاصل یہ موضوع بھی ان موارد میں سے ایک ہے کہ جس میں جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پایا کہ آپ کبھی اسے خیبر کے عنوان سے اور کبھی اسے سہم ذی القربی کے عنوان سے جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا کرتی تھیں۔
اس مورد میں بھی حق جناب فاطمہ زہراء (ع) کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن شریف کے مطابق خمس ان خاص موارد میں صرف ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور ضروری ہے کہ بنی ہاشم کے ذوی القربی اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کو دیا جائے۔ یہ کوئی وراثت نہیں کہ اس کا یوں جواب دیا جائے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبکر سے فرماتی تھیں کہ خداوند عالم نے قرآن میں ایک سہم خمس کا ذوی القربی کے لئے مخصوص کیا ہے اور چاہیئے کہ یہ اسی مورد میں صرف ہو آپ تو ذوی القربی میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے مصداق ہیں آپ نے یہ ہمارا حق کیوں لے رکھا ہے۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم خود جانتے ہو کہ تم نے اہلبیت کے ساتھ زیادتی کی ہے اور ہمیں رسول خدا (ص) کے صدقات اور غنائم کے سہم ذوی القربی سے کہ جسے قرآن نے معین کیا ہے محروم کردیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے ”و اعلموا انما غنمتم من شیء الخ” جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر اور آپ کے والد پر قربان جائیں اس رسول (ص) کی دختر میں اللہ کتاب اور رسول (ص) کے حق اور ان کے قرابت داروں کے حق کا پیرو ہوں، جس کتاب کو آپ پڑھتی ہیں میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میری نگاہ میں یہ نہیں آیا کہ خمس کا ایک پورا حصہ تمہیں دے دوں۔

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ آیا خمس کا یہ حصہ تیرے اور تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کی کچھ مقدار تمہیں دونگا اور باقی کو مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا حکم تو اس طرح نہیں ہے۔ جناب ابوبکر نے کہا کہ اللہ تعالی کا حکم یوں ہی ہے (6)۔

1) سورہ انفال آیت 41۔
2) سیرہ ابن ہشام، ج 3 ص 365، ص 371۔
3) فتوح البلدان، ص 26 تا 42۔
4) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 231۔
5) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 131۔
6) شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 230۔


فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button