زندگی نامہ

پانچواں درس: ورزش اور کھیل کود

تربیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کہ کھیل کود کی اس کی مرضی کے مطابق آزادی دینی چاہیئے بلکہ اس کے لئے کھیل کود اور سیر و سیاحت کے پورے اسباب فراہم کرنے ہیں آج کل متمدن معاشرے میں یہ موضوع قابل توجہ قرار دیا جاتا ہے اور پرائمری، ہڈل اور ہائی اسکول اور کالجوں میں کھیل اور تفریح کے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں کی عمر کے مطابق فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں مل کرکھیلنے اور ورزش کرنے کی تشویق دلاتے ہیں، گویا وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کھیلنا جیسے بدن کے رشد کرنے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی یہ ان کی روح کی تربیت کے لئے بھی بہت تاثیر رکھتا ہے۔

بعض لوگ بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑوں کی طرح زندگی گزاریں اوراپنے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں طفلانہ کھیل گود سے روکے رکھیں اور اگر کوئی بچہ کھیل کود میں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار دیتے ہیں اور اگر چپ چاپ سر جھکائے اورکھیل گود سے دور ایک گوشہ میں بیٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشی دیتے ہیں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہیں۔ لیکن نفسیات کے ماہر اس عقیدے کوغلط اور بے جا قرار دیتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ بچے کو کھیلنا چاہیئے۔ اور اگر بچہ نہ کھیلے تو یہ اس کے جسمی اور روحی بیمار ہونے کی علامت ہے۔ البتہ ماں باپ کو یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ بچہ وہ کھیل کود انجام نہ دے جو اس کے لئے ضرر کا موجب ہو اور دوسروں کے لئے مسرت کے اسباب فراہم کرتا ہو۔

ماں باپ صرف بچہ کو کھیل کودکے لئے آزادی ہی نہ دیں بلکہ خود بھی بیکاری کے وقت بچے کے ساتھ کھیلیں، کیوں کہ ماں باپ کا یہ عمل بچے کے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت کی علامت قرار دیتا ہے۔

رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کھیلتے تھے۔ ابوہریرہ نے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خد ا (ص) کو دیکھا کہ وہ حسن (ع) اور حسین (ع) کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں کو اپنے سینے پر رکھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) کے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسین (ع) اوپر چڑھتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں آپ کے سینے تک جا پہنچے آپ اپنے لبوں پر رکھ کر بوسہ دیتے اور فرماتے خدایا میں حسن(ع) اور حسین(ع) کو دوست رکھتا ہوں (1)۔

ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جناب حسن(ع) اور حسین(ع) پیغمبر(ص) کے سامنے کشتی کرتے تھے۔ پیغمبر(ص) امام حسن (ع) کو فرماتے شاباش حسن (ع) شاباش حسن (ع) ۔ جناب فاطمہ (ع) عرض کرتیں یا رسول اللہ(ص) حسن (ع) باوجودیکہ حسین (ع) سے بڑا ہے آپ انہیں حسین (ع) کے خلاف شاباش اور تشویق دلا رہے ہیں۔

آپ(ص) نے جواب دیا کہ حسین (ع) باوجودیکہ حسن (ع) سے چھوٹے ہیں لیکن شجاعت اور طاقت میں زیادہ ہیں اور پھر جناب جبرئیل حسین(ع) کو تشویق اور شاباش دے رہے ہیں ۔(2)

جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول خدا (ص) پاؤں اور ہاتھوں پر چل رہے ہیں اور آپ کی پشت پر حسن (ع) اور حسین سوار ہیں اور فرما رہے تھے تمہارا اونٹ سب سے بہتر اونٹ ہے اور تم بہترین سوار ہو۔(3)

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اجداد سے روایت کی ہے کہ جناب حسن (ع) اور حسین (ع) کافی رات تک جناب رسول خدا(ص) کے گھر میں کھیلتے رہتے تھے جناب رسولخدا اس کے بعد ان سے فرماتے کہ اب اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نکلنے تو بجلی چمکتی اورراستہ روشن ہو جاتا اور اپنے گھر تک جا پہنچے۔ اور پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ اس اللہ کا شکر کہ جس نے ہم اہلبیت کو معظم قرار دیا ہے۔ (4)

[1] بحار الانوار، ج 43 ص 287۔
[2] بحار الانوار، ج 43 ص 265۔
[3] بحار الانوار، ج 43 ص 285۔
[4] بحار الانوار، ج 43 ص 266۔

فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button