فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بیماری کے بستر پر
جناب فاطمہ (ع) باپ کی وفات کے بعد چند مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہیں، اور اسی طرح تھوڑی مدت میں بھی اتنا روئیں کہ آپ کو زیادہ رونے والوں میں سے ایک قرار دیا گیا آپ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا گیا (1)۔
جناب زہرا (ع) کے رونے کے مختلف عوامل اور سبب تھے سب سے زیادہ اہم سبب کہ جو آپ کی غیور اور احساس روح کو ناراحت کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آپ دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کی جوان ملت اپنے حقیقی اور صحیح راستے سے ہٹ گئی ہے اور ایک ایسے راستے پر گامزن ہوگئی ہے کہ بدبختی اور تفرقے اس کا حتمی انجام ہے۔
چونکہ حضرت زہرا (ع) نے اسلام کی ترقی، سریع اور پیشرفت کو دیکھا تھا آپ کو توقع تھی کہ اسی طرح اسلام ترقی کرے گا اور تھوڑی سی مدت میں کفر اور بت پرستی کو ختم کرکے رکھ دے گا اور ستم کا قلع قمع کردے گا، لیکن خلافت کے اصلی محور سے ہٹنے کی غیر متوقع صورت حال نے آپ کی امیدوں کے محل کو یک دم گرادیا۔
ایک دن جناب ام سلمہ جناب فاطمہ (ع) کے پاس آئیں اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آج رات صبح تک کیئے گزری؟ آپ نے فرمایا کہ غم و اندوہ میں کٹی۔ بابا مجھ سے جدا ہوگئے اور شوہر کی خلافت لے لی گئی اللہ اور رسول (ص) کے دستور کے خلاف امامت اور خلافت کو علی سے چھپناگیا کیوں کہ لوگوں کو علی (ع) سے کینہ تھا چوں کہ وہ ان لوگوں کے آباء و اجداد کو بدر کی جنگ میں قتل کرچکے تھے (2)۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) نے ایک دن اپنے باپ کی قمیص مجھ سے طلب کی جب میں نے ان کی قمیص انہیں دی تو اسے ا؟ نے سونگھا اور رونا شروع کردیا اور اتنا روئیں کہ آپ بیہوش ہوگئیں میں نے جب یہ حالت دیکھی تو میں نے آپ کی قمیص ان سے چھپادی (3)۔
روایت میں ہے کہ جب پیغمبر(ص) وفات پاگئے تو بلال نے جو آپ کے مخصوص موذن تھے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فاطمہ (ع) نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کی اذان سنو۔ بلال نے جناب فاطمہ (ع) کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہ (ع) کو اپنے باپ کے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہ (ع) نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں۔ بلال کو خبر دی گئی کہ آذان دینا بند کردو کیونکہ فاطمہ (ع) بیہوش ہوگئیں ہیں۔ بلال نے آذان روک دی جب جناب فاطمہ (ع) کو ہوش آیا تو بلال سے کہا کہ اذان کو پورا کرو انہوں نے عرض کی کہ آپ اگر اجازت دیں تو باقی اذان نہ کہوں کیوں کہ مجھے آپ کے بے ہوش ہونے کا خوف ہے (4)۔
جناب فاطمہ (ع) اتنا روئیں کہ آپ کے رونے سے ہمسائے تنگ آگئے وہ حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارا سلام جناب فاطمہ (ع) کو پہنچادیں اور ان سے کہیں کہ یا رات کو روئیں اور دن کو آرام کریں یا دن کو روئیں اور رات کو آرام کریں کیونکہ آپ کے رونے ہمارا آرام ختم کردیا ہے جناب فاطمہ (ع) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میری عمر ختم ہونے کو ہے میں زیادہ دنوں تک تم میں موجود نہ رہوں گی۔ آپ دن میں امام حسن (ع) اور حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتیں اور جناب رسول خدا (ص) کی قبر پر چلی جاتیں اور وہاں رویا کرتیں اور اپنے بیٹوں سے کہتیں میرے پیارو یہ تہارے نانا کی قبر ہے کہ جو تمہیں کندھے پر اٹھایا کرتے تھے اور تمہیں دوست رکھتے تھے اس کے بعد آپ بقیع کے قبرستان میں شہداء کی قبر پر جاتیں اور صدر اسلام کے سپاہیوں پر گریہ کرتیں حضرت علی (ع) نے آپ کے آرام کے لئے بقیع میں سائبان بنادیا تھا کہ جسے بعد میں بیت الحزن کے نام سے پکارا جانے لگا (5)۔
انس کہتا ہے کہ جب ہم پیغمبر (ص) کے دفن سے فارغ ہوچکے اور گھر واپس لوٹ آئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے انس کس طرح راضی ہوئے کہ پیغمبر(ص) کے بدن پر مٹی ڈالو (6)۔
محمود بن بسید کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد کی وفات کے بعد جناب حمزہ کی قبر پر گریہ کرتی تھیں ایک دن میرا گزر احد کے شہدا سے ہوا تو میں نے فاطمہ (ع) کو دیکھا کہ جناب حمزہ کی قبر پر بہت سخت گریہ کر رہی ہیں میں نے صبر کیا یہاں تک کہ آپ نے توقف کیا، میں سامنے گیا اور سلام کیا اور عرض کی اے میری سردار آپ نے اپنے اس جانگداز گریہ سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے حق پہنچتا ہے کہ اس طرح کا گریہ کروں کیونکہ میں نے کیسا مہربان باپ اور پیغمبروں میں بہترین پیغمبر اپنے ہاتھ سے کھودیا ہے، کتنا آپ کی زیارت کا مجھ میں شوق موجود ہے۔ میں نے عرض کی اے میری سردار میں دوست رکھتا ہوں کہ آپ سے ایک مسئلہ پوچھوں آپ نے فرمایا کہ پوچھو۔ میں نے عرض کیا رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں حضرت علی (ع) کی امامت کی تصریح کردی تھی آپ نے فرمایا تعجب ہے۔ کیا تم نے غدیر کا واقعہ بھلادیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ غدیر کا واقعہ تو میں جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں یہ معلوم کروں کہ جناب رسول خدا(ص) نے اس بارے میں آپ سے کیا فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد علی (ع) میرا خلیفہ اور امام ہے اگر اس کی اطلاعت کی تو ہدایت پاؤگے اور اگر اس کی مخالفت کی تو قیامت کے دن تک تم میں اختلاف موجود رہے گا (7)
فاطمہ (ع) بیماری کے بستر پر جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب قنفذ کی ان ضربات سے جو اس نے جناب فاطمہ (ع) کے نازنین جسم پر لگائی تھیں آپ کے بچے کا اسقاط ہوگیا اور اسی وجہ ۔ سے آپ ہمیشہ بیمار اور ضعیف رہیں یہاں تک کہ آپ بالکل بستر سے لگ گئیں (8)۔
حضرت علی (ع) اور جناب اسماء بنت عمیس آپ کی تیمارداری کیا کرتے تھے (9)۔
ایک دن انصار اور مہاجرین کی عورتوں کی ایک جماعت آپ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوئی اور عرض کی اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کی حالت کیسی ہے؟ آپ نے فرمایا قسم خدا کی میں دنیا سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی تمہارے مردوں سے جب ان کا امتحان کرچکی ہوں تو دلگیر ہوں اور انہیں دور پھینک دیا ہے اور ان کے ہاتھ سے ملول خاطر ہوں۔ ان کی متزلزل رائے اور سست عقیدہ اور ان کی بے حالی پر اف ہو۔ کتنا برا انہوں نے کام انجام دیا ہے اور غضب الہی کے مستحق بنے ہیں؟ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہیں۔ ہم نے خلافت اور امامت کو ان کے ہاتھ میں چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اس کا عار اور ننگ ان کے دامن پر ہمیشہ رہے گا، ظلم کرنے والوں پر ذلت اور خواری ہوا کرتی ہے ان کی حالت پر افسوس اور روائے ہو۔ کس طرح انہوں نے حضرت علی (ع) سے خلافت کو چھینا ہے خدا کی قسم ان کا علی (ع) سے دور ہٹنا اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ حضرت علی (ع) کی کاٹنے والی تلوار اور بہادری اور خدا کی راہ میں سخت حملے کرنے سے خوش نہ تھے۔
خدا کی قسم اگر خلافت علی (ع) کے ہاتھ سے نہ لی ہوتی اور علی (ع) ان کی حکومت کی زمام اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو وہ بہت آسانی سے انہیں خوش بختی اور سعادت کی طرف ہدایت کرتے اور بہت جلد ریاست طلب کا متقی اور سچے کا جھوٹے سے امتیاز ہوجاتا بہت جلد ظالم اپنے اعمال کی سزا پالیتا، ان لوگوں کا کام بہت زیادہ تعجب آور ہے، ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ کس دلیل پر انہوں نے اعتماد اور تکیہ کیا ہے؟ کون سی رسی سے تمسک کیا ہے؟ اور کس خاندان کے خلاف انہوں نے اقدام کیا ہے؟ علی (ع) کی جگہ کس کا انتخاب کیا ہے؟ خدا کی قسم علی (ع) کی جگہ اتنی لیاقت والے کو نہیں لائے؟ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کام کیا ہے، حالانکہ انہوں نے غیر معقول کام انجام دیا ہے۔ وہ خود بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے اصلاح کی جگہ فساد اور فتنے کو ایجاد کیا ہے۔ آیا وہ شخص جو لوگوں کو ہدایت کی طرف لے جائے رہبری کے لئے بہتر ہے یا وہ شخص جو ابھی ہدایت پانے کا دوسروں کی طرف محتاج ہو تم کس طرح فیصلہ دیتی ہو؟ خدا کی قسم ان کے کردار اور آئندہ آنے والے حالات کا نتیجہ بعد میں ظاہر ہوگا لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ سوائے تازہ خون اور قتل کرنے والے زہر کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
اس وقت ظلم کرنے والوں کا نقصان میں ہونا ظاہر ہوجائے گا۔ اب تم ناگوار واقعات کے لئے تیار ہوجاؤ اور کاٹنے والی تلواروں اور دائمی گڑبڑ اور ڈکٹیٹر شپ کا انتظار کرو۔ تمہارے بیت المال کو لوٹیں گے اور تمہارے منافع کو اپنی جیب میں ڈالیں گے تمہاری حالت پر افسوس۔ اس طرح کیوں ہوگئے ہو؟ تمہیں علم نہیں کہ کس خطرناک راستے پر چل پڑے ہو؟ نتائج سے نا واقف ہو؟ کیا ہم تم کو ہدایت پر مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم ہدایت کی طرف جانے کو پسند نہیں کرتے (10)۔
—
[2] بحار الانوار، ج 43 ص 156۔
[3] بحار الانوار، ج 43 ص 175۔
[4] بحار الانوار، ج 43 ص 157۔
[5] بحار الانوار، ج 43 ص 177۔
[6] اسد الغابة ابن اثیر، ج 5 ص 524۔ طبقات ابن سعد ج 2 رقم 2 ص 83۔
[7] ریاحین الشریعہ، ج 1 ص 250۔
[8] دلائل امامہ ص 45۔ بحار الانوار، ج 43 ص 70 1۔
[9] بحار الانوار، ج 43 ص 211۔
[10] احتجاج طبرسی، ج 1 ص 147۔ بحار الانوار، ج 43 ص 161۔ شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 233۔ بلاغات النساء ص 19۔
فہرست |