فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا علم و دانش
عمار کہتے ہیں ایک دن حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) آپ میرے نزدیک آئیں تا کہ میں آپ کوگزشتہ اور آئندہ کے حالات بتلاؤں، حضرت علی (ع) ، فاطمہ (ع) کی اس گفتگو سے حیرت میں پڑ گئے اور پیغمبر (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور سلام کیا اور آپ کے نزدیک جا بیٹھے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آپ بات شروع کریں گے یا میں کچھ کہوں؟ حضرت علی (ع) نے عرض کی کہ میں آپ کے فرمان سے استفادہ کرنے کو دوست رکھتا ہوں۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا گویا آپ سے فاطمہ (ع) نے یہ کہا ہے اور اسی وجہ سے تم نے میری طرف مراجعت کی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) کیا فاطمہ (ع) کا نور بھی ہمارے نور سے ہے۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کیا آپ کو علم نہیں ہے؟ حضرت علی (ع) یہ بات سن کر سجدہ شکر میں گر گئے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔
اس کے بعد جناب فاطمہ (ع) کے پاس لوٹ آئے۔ حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا یا علی (ع) گویا میرے بابا کے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے یہ فرمایا؟ آپ نے فرمایا ہاں اے دختر پیغمبر (ص) ۔ فاطمہ (ع) نے فرمایا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے میرے نور کو پیدا کیا اور وہ اللہ تعالی کی تسبیح کرتا تھا اس وقت اللہ تعالی نے اس نور کو بہشت کے ایک درخت میں ودیعت رکھ دیا میرے والد بہشت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم یا کہ اس درخت کامیوہ تناول کریں، میرے والد نے اس درخت کے میوے تنال فرمائے اسی ذریعہ سے میرا تور آپ(ص) کے صلب میں منتقل ہوگیا اورمیرے بابا کے صلب سے میری ماں کے رحم میں وارد ہوا۔ یا علی (ع) میں اسی نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ کے حالات اور واقعات کو اس نور کے ذریعہ پالیتی ہوں۔ یا ابالحسن، مومن نور کے واسطے سے خدا کو دیکھتا ہے۔(1)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک عورت حضرت فاطمہ (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی کہ میری ماں عاجز ہے اسے نماز کے بارے میں بعض مشکل مسائل در پیش ہیںمجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میںآپ سے سوال کروں، اس نے مسئلہ پیش کیا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس کا جواب دیا اس عورت نے دوسری دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس کا بھی جواب دیا، اس عورت نے تیسری دفعہ پھر تیسرا مسئلہ پوچھا اور اسی طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب کے جواب دیئے اس کے بعد وہ عورت زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے شرمسار ہوئی اور عرض کی، دختر رسول(ص) اب اور میں مزاحم نہیں ہوتی آپ تھک گئی ہیں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا شرم نہ کر جو بھی سوال ہو پوچھو تا کہ میں اس کا جواب دوں۔ میں تیرے سوالوں سے نہیں تھکتی بلکہ کمال محبت سے جوال دوں گی اگر کسی کو زیادہ بوجھ چھت تک اٹھا کرلے جانے کے لئے اجرت پر لیا جائے اور وہ اس کے عوض ایک لاکھ دینار اجرت لے تو کیا وہ بارے کے اٹھانے سے تھکے گا؟ اس عورت نے جواب دیا نہیں، کیوں کہ اس نے اس بار کے اٹھانے کی زیادہ مزدورں وصول کی ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ خدا ہر ایک مسئلے کے جواب میں اتنا ثواب عنایت فرماتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ زمین اور آسمان کو مروارید سے پر کر دیا جائے تو کیااس کے باوجود میںمسئلے کے جواب دینے میں تھکوں گی۔
میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ میرے شیعوں کے علماء قیامت میں محشور ہوں گے اور خدا ان کے علم کی مقدار اور لوگوں کو ہدایت اور ارشاد کرنے میں کوشش اور جد و جہد کے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک کو دس لاکھ حلے نور کے عطا فرمائے گا اور اس کے بعد حق کامنادی ندا دے گا، اے وہ لوگو کو جنہوں نے آل محمد (ص) کے یتیموں کی کفالت کی ہے، اور اس زمانے میں کہ ان کے امام کا سلسلہ ان سے منقطع ہوچکا تھا یہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ یتیم ہیں کہ جو تمہاری کفالت کے ماتحت اپنی دینداری پر باقی رہے ہیں اور ارشاد اورہدایت کرتے رہے ہیں، جتنی مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ کیا ہے ان کو بھی خلعت دو اس وقت میری امت کے علماء اپنے پیروکاروں کو خلعت عطا فرمائیں گے، پھر وہ پیروکار اور شاگرد اپنے شاگروں کو خلعت دیں گے، جب لوگوں میں خلعت تقسیم ہوچکے گی تو اللہ کی طرف سے دستور دیا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسیم کی ہیں ان کو مکمل کیا جائے یہاں تک کہ سابقہ تعداد کے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا کہ اسے دوبرابر کردو اور اس طرح ان کے پیروکاروں کو بھی اسی طرح دو۔
اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا: اے کنیز خدا اس خلعت کا ایک دھاگا ہزار درجہ اس چیز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمکتا ہے اس لئے کہ دنیاوی امور مصیبت اور کدورت سے آلودہ ہوتے ہیں، لیکن اخروی نعمات میں کوئی نقص اور عیب نہیں ہوتا۔ (2)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دو عورتیں کہ ان میں سے ایک مومن اور دوسری معاند اور دشمن تھی، ایک دینی مطلب میں آپس میں اختلاف رکھتی تھیں اس اختلاف کے حل کرنے کے لئے جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے مطلب کو بتلایا چونکہ حق مومن عورت کے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس کی تائید کی اور اس ذریعے سے اس پر فتح مند کردیا اور وہ مومن عورت اس کامیابی سے خوشحال ہوگئی۔ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فرشتے تجھ سے زیادہ خوشحال ہوئے ہیں اور شیطان اور اس کے پیروکاروں پرغم و اندوہ اس سے زیادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے۔
اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمایا ہے کہ اس خدمت کے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت کے لئے انجام دی ہے، بہشت اور بہشتی نعمتوں کو اس سے جو پہلے سے مقرر تھیں کئی ہزار گناہ مقرر کردیا جائے اور یہی روش اور سنت اس عالم کے بارے میں بھی جاری کی جاتی ہے جو اپنے علم سے کسی مومن کو کسی معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس کے ثواب کو اللہ تعالی کئی کئی ہزار برابر مقرر کردیتا ہے۔(3)
—
[2] بحار الانوار، ج 2 ص 3۔
[3] بحار الانوار، ج 2 ص 8۔
فہرست |