زندگی نامہ

تنبیہہ

جو اموال پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تصرف اور قبضے میں تھے وہ دو قسم کے تھے۔

پہلی قسم:

یہ وہ مال تھا کہ جس کا تعلق ملت اسلامی سے ہوتا ہے اور بیت المال کا عمومی مال شمار ہوتا ہے جس کو یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ حکومت کا مال ہے رسول خدا(ص) چونکہ مسلمانوں کے حاکم تھے آپ اس قسم کے مال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے تمام مسلمانوں کے مصالح اور مفاد کے لئے خرچ کیا کرتے تھے ایسا مال نبوت اور امامت اور حکومت اسلامی کا مال ہوتا ہے ایسے مال ہیں قانون وراثت جاری نہیں ہوتا بلکہ اس منصب دار کی موت کے بعد اس کے جانشین شرعی کی طرف بطور منصب منتقل ہوجاتا ہے۔

حضرت زہراء (ع) نے اس قسم کے اموال میں وراثت کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور اگر کبھی آپ نے اس قسم کے مال میں بطور اشارہ بھی مطالبہ کیا ہو تو وہ اس لئے تھا کہ آپ جناب ابوبکر کی حکوت کو قانونی اور رسمی حکومت تسلیم نہیں کرتی تھیں بلکہ اپنے شوہر حضرت علی (ع) کو قانونی اور شرعی خلیفہ جانتی تھیں تو گویا آپ اس قسم کے مال کا مطالبہ کر کے اپنے شوہر کی خلافت کا دفاع کرتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حدیث کو اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیں تو وہ بھی اس قسم کے مال کی وراثت کی نفی کر رہی ہے نہ پیغمبر(ص) کے ہر قسم کے مال کو شامل ہے۔

دوسری قسم:

وہ مال تھا جو آپ کا شخصی اور ذاتی مال تھا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) بھی تو انسانوں کے افراد میں سے ایک فرد تھے کہ جنہیں مالکیت کا حق تھا آپ بھی کسب اور تجارت اور دوسرے جائز ذرائع سے مال کمانے تھے ایسا مال آپ کی شخصی ملکیت ہوجاتا تھا، ایسے مال پر ملکیت کے تمام قوانین اور احکام یہاں تک کہ وراثت کے قوانین بھی مرتب ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں آپ بلاشک اور تردید اس قسم کے اموال رکھتے تھے اور آپ کو بھی غنیمت میں سے حصہ ملتا تھا اس قسم کے مال میں رسول خدا (ص) اور دوسرے مسلمان برابر اور مساوی ہیں اس پر اسلام کے تمام احکام یہاں تک کہ وراثت کے احکام بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مرتب ہوتے ہیں۔ جناب زہراء (ع) نے ایسے اموال کی وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا تھا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کسی کو جناب ابوبکر کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ تم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وارث ہو یا ان کے اہلبیت؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے اہلبیتِ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا پس رسول خدا (ص) کا حصہ کہاں گیا (1)۔

اس قسم کے مال میں جناب رسول خدا(ص) کو جناب ابوبکر کے ساتھ کوئی فرق نہ تھا، جناب ابوبکر باوجودیکہ اپنے آپ کو رسول خدا(ص) کا خلیفہ جانتے تھے وہ بھی اپنے شخصی اموال میں تصرف کیا کرتے تھے اور اسے اپنے بعد اپنے وارثوںکی ملک جانتے تھے پس ابوبکر پر ضروری تھا کہ رسول خدا (ص) کے شخصی مال کو بھی آپ کے وارثوں کی ملک جانتے؟ اسی لئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا تھا کہ تیری بیٹیاں تو تم سے وراثت لیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیٹی اپنے باپ سے وراثت نہ لے؟ جناب ابوبکر نے بھی جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی ہے یعنی ان کی بیٹی اپنے باپ سے وراثت نہ لے (2)۔

ختم شد

[الحمدلله علی اتمامه و صلی الله علی محمد و آله] —

[1] شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 219۔
[2] شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 219۔


فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button