دوسرا اعتراض
جناب ابوبکر اس نزاع میں جانتے تھے کہ حق جناب فاطمہ (ع) کے ساتھ اور خود۔ انہیں جناب زہراء (ع) کی صداقت اور راست گوئی کا نہ صرف۔۔۔۔ اعتراف تھا بلکہ تمام مسلمان اس کا اعتراف کرتے تھے کوئی بھی مسلمان آپ کے بارے میں جھوٹ اور افتراء کا احتمال نہ دیتا تھا کیوں کہ آپ اہل کساء میں سے ایک فرد تھیں کہ جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے کہ جس میں خداوند عالم نے آپ کی عصمت اور پاکیزگی کی تصدیق کی ہے۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ مطلب کتاب قضا اور شہادت میں ثابت ہے کہ اموال اور دیوں کے معاملے میں اگر قاضی کو واقعہ کا علم ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرسکتا ہے اور وہ گواہ اور بینہ کا محتاج نہ ہوگا، بنا بر این جناب ابوبکر جب جانتے تھے کہ حضرت زہراء (ع)، سچی ہیں اور رسول خدا (ص) نے فدک انہیں عطا کیا ہے تو آپ کو چاہیئے تھا کہ فوراً جناب زہراء (ع) کی بات تسلیم کرلیتے اور آپ سے گواہوں کا مطالبہ نہ کرتے۔
جی ہاں مطلب تو یوں ہی ہے کہ جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق حضرت زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور رسول خدا(ص) نے فدک میں انہیں دے دیا ہے شاید ابوبکر پیغمبر (ص) کے اس عمل سے ناراض تھے اسی لئے جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں کہا کہ یہ مال پیغمبر اسلام کا نہ تھا بلکہ یہ مسلمانوں کا مال تھا کہ جس سے پیغمبر (ص) فوج تیار کرتے تھے اور جب آپ فوت ہوگئے تو اب میں اس مال کا متولی ہوں جیسے کہ پیغمبر(ص) متولی تھے (1)۔
ایک اور جگہ جناب ابوبکر نے اپنے آپ کو دوبڑے خطروں میں دیکھا ایک طرف جناب زہراء (ع) مدعی تھیں کہ رسول خدا (ص) نے فدک انہیں بخشا ہے اور اپنے اس مدعا کے لئے دو گواہ علی (ع) اور ام ایمن کو حاضر کیا اور جناب ابوبکر جانتے تھے کہ حق جناب زہراء (ع) کے ساتھ ہے اور انہیں اور ان کے گواہوں کو نہیں چھٹلا سکتے تھے اور دوسری طرف سیاست وقت کے لحاظ سے جناب عمر اور عبدالرحمن کو بھی نہیں جھٹلا سکتے تھے تو آپ نے ایک عمدہ چال سے جناب عمر کے قول کو ترجیح دی اور تمام گواہوں کے اقوال کی تصدیق کردی اور ان کے اقوال میں جمع کی راہ نکالی اور فرمایا کہ اے دختر رسول (ص) آپ سچی ہیں علی (ع) سچے ہیں اور ام ایمن سچی ہیں اور جناب عمر اور عبدالرحمن بھی سچے ہیں، اس لئے کہ جناب رسول خدا(ص) فدک سے آپ کے آذوقہ کی مقدار نکال کر باقی کو تقسیم کردیتے تھے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور آپ اس مال میں کیا کریں گی؟ جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہی کروں گی جو میرے والد کرتے تھے، جناب ابوبکر نے کہا کہ میں قسم کھا کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے (2)۔
ایک طرف تو جناب ابوبکر جناب زہراء (ع) کے اس ادعا ”کہ فدک میرا مال ہے” کی تصدیق کرتے ہیں اور حضرت علی (ع) اور ام ایمن کی گواہوں کی بھی تصدیق کرتے ہیں اور دوسری طرف جناب عمر اور عبدالرحمن کے قول کی بھی انہوں نے کہا کہ رسول خدا فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے تصدیق کرتے ہیں اور اس وقت اپنے اجتہاد کے مطابق ان اقوال (توافق) جمع کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مال آپ کے والد کا مال تھا کہ جس سے آپ کا آذوقہ لے لیتے تھے اور باقی کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے اس کے بعد جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) سے پوچھتے ہیں کہ اگر فدک آپ کو دے دیا جائے تو آپ کیا کریں گی، آپ نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی طرح خرچ کروں گی تو فوراً جناب ابوبکر نے قسم کھا کر جواب دیا کہ میں بھی وہی کروں گا جو آپ کے والد کیا کرتے تھے اور میں آپ(ص) کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا۔
لیکن کوئی نہ تھا کہ جناب ابوبکر سے سوال کرتا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ فدک جناب زہراء (ع) کی ملک ہے اور آپ جناب فاطمہ (ع) اور ان کے گواہوں کی تصدیق بھی کر رہے ہیں تو پھر ان کی ملکیت ان کو واپس کیوں نہیں کردیتے؟ جناب عمر اور عبدالرحمن کی گواہوں صرف یہی بتلانی ہے کہ پیغمبر(ص) فدک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیتے تھے، اس سے جناب زہراء (ع) کی ملکیت کی نفی تو نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر(ص) جناب زہراء (ع) کی طرف سے ماذون تھے کہ فدک کی زائد آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کردیں، لیکن اس قسم کی اجازت جناب فاطمہ (ع) نے ابوبکر کو تو نہیں دے رکھی تھی بلکہ اس کی اجازت ہی نہیں دی تو پھر ابوبکر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ میں بھی آپ کے والد کی سیرت سے تجاوز نہ کروں گا، مالک تو کہتا ہے کہ میری ملکیت مجھے واپس کردو اور آپ اس سے انکار کر کے وعدہ کرتے ہیں کہ میں بھی آپ کے والد کی طرح عمل کروں گا، سبحان اللہ اور آفرین اس قضاوت اور فیصلے پر۔
—
[2] شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 216۔
| فہرست |