زندگی نامہ

رسول خدا ﷺ کے مدینہ میں اموال

بنی نضیر یہودیوں کی زمینیں رسول خدا (ص) کا خالص مال تھا، کیونکہ بغیر جنگ کے فتح ہوئی تھیں اس قسم کے مال میں پیغمبر اسلام (ص) کو پورا اختیار تھا کہ جس طرح مصلحت دیکھیں انہیں مصرف میں لائیں، چنانچہ آپ نے بنی نضیر سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیئے اور کچھ زمین اپنے لئے مخصوص کرلی اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا کہ اس پر تصرف کریں اور بعد میں اسی زمین کو وقف کردیا اور موقوفات میں داخل قرار دیا اپنی زندگی میں اس کے متولی خود آپ تھے آپ کی وفات کے بعد اس کی تولیت حضرت علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان کی اولاد کے سپرد کی۔ (1)

یہودیوں کے علماء میں سے مخیرق نامی ایک عالم ۔ مسلمان ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) کو بخش دیا ان کے اموال میں سات باغ تھے کہ جن کے یہ نام تھے۔ مشیب، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہیم یہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) کو ہبہ کردیئے۔ آپ (ص) نے بھی انہیں وقف کردیا تھا (2)۔

بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے سات زرعی زمینوں کے متعلق ”جو جناب فاطمہ (ع) کی تھیں“ امام رضا (ع) سے سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا یہ رسول خدا (ص) نے وقف کی تھیں کہ جو بعد میں حضرت زہراء (ع) کو ملی تھیں، پیغمبر اسلام (ص) اپنی ضروریات بھر ان میں سے لیا کرتے تھے جب آپ نے وفات پائی تو جناب عباس نے ان کے بارے میں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع کیا، حضرت علی (ع) اور دوسروں نے گواہی دی کہ یہ وقفی املاک ہیں وہ زرعی زمینیں اس نام کی تھیں دلال، اعوف حسنی، صافیہ، مشربہ ام ابراہیم، مشیب، برقہ (3)۔

حلبی اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کا مال تھا (4)۔

ابو مریم کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) کے صدقات بنی ہاشم اور بنی المطلب کا مال تھا (5)۔

جناب رسول خدا (ص) نے ان املاک کو جو مدینہ کے اطراف میں تھے وقف کردیا تھا اور ان کی تولیت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت علی (ع) کے سپرد کر دی تھی۔ یہ املاک بھی ایک مورد تھا کہ جس میں حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا ہوا تھا۔

بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے میں کامیاب ہوگئیں اور مدینہ کے صدقات اور اوقاف کو آپ نے ان سے لے لیا، اس کی دلیل اور قرینہ یہ ہے کہ آپ نے موت کے وقت ان کی تولیت کی علی (ع) اور اپنی اولاد کے لئے وصیت کی تھی، لیکن مجلسی نے نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر نے بالکل کوئی چیز بھی جناب فاطمہ (ع) کو واپس نہیں کی البتہ جب جناب عمر خلافت کے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدینہ کے صدقات اور اوقاف حضرت علی (ع) اور عباس کو واپس کر دیئے لیکن خیبر اور فدک واپس نہ کئے اور کہا کہ یہ رسول خدا (ص) کے لازمی اور ناگہانی امور کے لئے وقف ہیں۔

مدینہ کے اوقاف اور صدقات حضرت علی (ع) کے قبضے میں تھے اس بارے میں جناب عباس نے حضرت علی (ع) سے نزاع کیا لیکن اس میں حضرت علی کامیاب ہو گئے لہذا آپ کے بعد یہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں آیا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) کے ہاتھ میں تھے یہاں تک کہ بنی عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے یہ صدقات بنی ہاشم سے لے لئے (6)۔

[1] بحار الانوار، ج 20 ص 173۔
[2] فتوح البلدان، ص 31۔ سیرة ابن ہشام، ج 2 ص 5 16۔
[3] بحار الانوار، ج 22 ص 296۔
[4] بحار الانوار، ج 22 ص 266۔
[5] بحار الانوار، ج 22 ص 297۔
[6] بحار الانوار، ج 42 ص 300۔


فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button