تیسرا مرحلہ فدک (1)
جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا (2)۔
کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا۔
فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ ”وات ذا القربی حقه” (3)۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند ۔ یہ ہیں۔
ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ”وات ذاالقربی حقه” نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے (4)۔
عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت ”و آت ذاالقربی حقه” نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(5)۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا (3)۔
فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی (6)۔
اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے (7)۔
دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا (8)۔
ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے۔
اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا۔
—
[2] شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 210۔
[3] سورہ اسراء آیت ص 26۔
[4] کشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور تفسیر در منثور، ج 4 ص 177۔
[5] کشف الغمہ، ج 2 ص 102
[6] کشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور کتاب در منثور، ج 4 ص 177 ور غایة المرام ص 323 میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے۔
[7] سفینة البحار، ج 2 ص 251۔
[8] شرح ابن ابی الحدید، ج 16 ص 216۔
فہرست |