زندگی نامہ

جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی شادی

جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پیغمبر خدا ﷺ کی بیٹی اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں قریش کے اصل اور شریف خاندان سے آپ کے والدین تھے۔ جمال ظاہری اور روحانی کمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ میں پایا تھا، آپ انسانی کمالات کے اعلی ترین کمالات سے مزین تھیں آپ کے والد کی شخصیت دن بدن لوگوں کی نگاہوں میں بلند ہو رہی تھی آپ کی قدرت اور عظمت بڑھ رہی تھی اس لئے آپ کی دختر نیک اختر کی ذات بزرگان قریش اور باعظمت شخصیات اور ثروت مند حضرات کی نگاہوں میں مورد توجہ قرار پاچکی تھی۔ تاریخ میں ہے کہ اکثر اوقات بزرگان آپ کی خواستگاری کرتے رہتے تھے لیکن پیغمبر اسلام ﷺ بالکل پسند نہیں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پیش آتے تھے کہ انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پیغمبر اسلام نے ناراض ہیں۔(1)

جناب رسول خدا ﷺ نے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو علی (علیہ السلام) کے لئے مخصوص کر دیا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے۔(2) پیغمبر اسلام ﷺ خداوند عالم کی طرف سے مامور تھے کہ نور کا عقد نور سے کریں ۔(3)

لکھا ہے کہ جناب ابوبکر بھی خواستگاروں میں سے ایک تھے، ایک دن وہ اسی غرض سے جناب رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وصلت کروں، کیا ممکن ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا عقد آپ مجھ سے کردیں؟ جناب رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ابھی کمسن ہے اور اس کے لئے شوہر کی تعیین خدا کے ہاتھ میں ہے میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں۔ جناب ابوبکر مایوس ہوکر واپس لوٹے راستے میں ان کی ملاقات جناب عمر سے ہوگئی تو اپنے واقعہ کو ان سے بیان کیا جناب عمر نے ان سے کہا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے تمہارے مطالبے کو رد کردیا ہے۔ اور آپ ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی دختر تجھے دیں۔

جناب عمر بھی ایک دن جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی خواستگاری کی غرض سے پیغمبر اسلام ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعیان بیان کیا۔ پیغمبر خدا ﷺ نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کمسن ہے اور اس کے شوہر کا معین کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، کئی دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگاری کی درخواست کی جو قبول نہیں کی گئی۔

عبدالرحمن بن عوف اور جناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمایہ دار تھے پیغمبر اسلام ﷺ کے پاس خواستگاری کے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اگر فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی شادی مجھ سے کر دیں تو میں سو سیاہ اونٹ آبی چشم کہ جن پر مصری کتان کے کپڑوں سے بار لادا گیا ہو اور دس ہزار دینار بھی حق مہر دینے کے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض کیا کہ میں بھی حاضر ہوں کہ اتنا ہی مہر ادا کروں اور مجھے عبدالرحمن پر ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ میں اس سے پہلے ایمان لایا ہوں۔

پیغمبر اسلام ﷺ ان کی گفتگو سے سخت غضبناک ہوئے اور انہیں یہ سمجھانے کے لئے کہ میں مال سے محبت نہیں رکھتا آپ نے ایک مٹھی سنگریزوں کی بھرلی اور عبدالرحمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا کہ تم خیال کرتے ہو کہ میں مال کا پرستار ہوں اور اپنی ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات کرنا چاہتے ہو کو مال و دولت کے دباؤ سے میں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا عقد تجھ سے کردوں گا۔ (4)

[1] کشف الغمہ۔ ج 1۔ ص 253۔
[2] کشف الغمہ۔ ج1۔ ص 354۔
[3] دلائل الامامہ۔ ص 19۔
[4] مناقب شہر ابن آشوب۔ ج2۔ ص 345۔ تذکرة الخواص۔ ص306۔

فہرست

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button