قرآن کی مخالفت
یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے کیونکہ قرآن میں تصریح کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے مردوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور جیسا کہ آئمہ طاہرین نے فرمایا ہے کہ جو حدیث قرآن کی مخالف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی اسے دیوار پر دے مارو، ان آیات میں سے کہ جو انبیاء کے ارث چھوڑنے کو بتلاتی ہیں ایک یہ ہے:
”ذکر رحمة ربک عبده ذکر یا اذ نادی ربه خفیا خفیا” تا ”فهب لی من لدنک ولیاً یرثنی و یرث من آل یعقوب و اجعله رب رضیاً” (2)۔
لکھا ہے کہ جناب زکریا کے چچازاد بھائی بہت برے لوگ تھے اگر جناب زکریا کے فرزند پیدا نہ ہوتا تو آپ کا تمام مال چچازاد بھائیوں کو ملنا آپ کو ڈر تھا کہ میری میراث چچازاد بھائیوں کو مل گئی تو اس مال کو برائیوں اور گناہ پر خرچ کریں گے اسی لئے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ خدایا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائیوں سے خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے، خداوندا مجھے ایک فرزند عطا فرما جو میرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب کی دعا قبول فرمائی اور خدا نے جناب یحیی کو انہیں عطا کیا۔ اس آیت سے اچھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرف میراث چھوڑتے ہیں ورنہ حضرت زکریا کی دعا اور خواہش بے معنی ہوتی۔
یہاں یہ کہا گیا ہے کہ شاید جناب زکریا کی وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالی سے خواہش کی ہو کہ انہیں فرزند عنایت فرمائے کہ جو ان کے علوم کا وارث ہو اور دین کی ترویج کی کوشش کرے، لیکن تھوڑاسا غور کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ احتمال درست نہیں ہے اس لئے کہ وراثت کا لفظ مال کی وراثت میں ظہور رکھتا ہے نہ علم کی وراثت میں اور جب تک اس کے خلاف کوئی قرینہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہی محمول کیا جائے گا۔ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال کی وراثت ہو تو جناب زکریا کا خوف یا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمی وراثت ہو تو پھر اس آیت کے معنی کسی طرح درست نہیں قرار پاتے کیوں کہ اگر مراد علمی وراثت سے علمی کتابیں ہیں تو یہ در حقیقت مالی وراثت ہوجائے گی اس لئے کہ کتابوں کا شمار اموال میں ہوتا ہے نہ علم میں اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت زکریا کو اس کا خوف تھا کہ علوم اور معارف اور قوانین شریعت ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھ میں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو بھی جناب زکریا کا یہ خوف درست نہ تھا کیوں کہ جناب زکریا کا وظیفہ یہ تھا کہ قوانین اور احکام شریعت کو عام لوگوں کے سپرد کریں اور ان کے چچازاد بھائی بھی عموم ملّت میں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زکریا کے فرزند بھی ہوجاتا تب بھی آپ کے چچازاد بھائی قوانین کے عالم ہونے کی وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سکتے تھے اور اگر جناب زکریا کو اس کا خوف تھا کہ وہ مخصوص علوم جو انبیاء کے ہوتے ہیں وہ ان کے چچازاد بھائیوں کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں تو بھی آنجناب کا یہ خوف بلا وجہ تھا کیون کہ وہ مخصوص علوم آپ ہی کے اختیار میں تھے اور بات آپ کی قدرت میں تھی کہ ان علوم کی اپنے چچازاد بھائیوں کو اطلاع ہی نہ کریں تا کہ وہ اسرار آپ ہی کے پاس محفوظ رہیں اور آپ جانتے تھے کہ خداوند عالم نبوت کے علوم کا مالک بدکار لوگوں کو نہیں بتاتا۔ بہرحال وراثت سے علمی وراثت مراد ہو تو جناب زکریا کا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا۔
ممکن ہے یہاں کوئی یہ کہے کہ جناب زکریا کو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا کہ آپ کے چچازاد بھائی برے آدمی اور خدا کے دین اور دیانت کے دشمن تھے آپ کے بعد اس کے دین کو بدلنے کے درپے ہوتے اور آپ کی زحمات کو ختم کر کے رکھ دیتے لہذا جناب زکریا نے خدا سے دعا کی کہ مجھے ایک ایسا فرزند عنایت فرما کہ جو مقام نبوت تک پہنچے اور خدا کے دین کے لئے کوشش کرے اور اسے باقی رکھے پس اس آیت میں وراثت سے مراد علم اورحکمت کی وراثت ہوگی نہ مال اور ثروت کی۔
لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خدا کبھی بھی زمین کو پیغمبر یا امام کے وجود سے خالی نہیں رکھتا، لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جناب زکریا کو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا کہ شاید خداوند عالم دین اور شریعت کو بغیر کسی حامی کے چھوڑ دے اور اگر جناب زکریا ایسا فرزند چاہتے تھے کہ جو پیغمبر اور دین کا حامی ہو تو آپ کو اس طرح نہ کہنا چاہیئے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عنایت فرما جو میری وراثت کے مالک ہو اور اسے صالح قرار دے۔ بلکہ ان کو اس صورت میں اس طرح دعا کرنی چاہیئے تھی کہ خدایا مجھے خوف ہے کہ میرے بعد دین کی اساس کو ختم کردیا جائے گا میں تجھ سے تمنا کرتا ہوں کہ میرے بعد دین کی حمایت کے لئے ایک پیغمبر بھیجنا اور میں دوست رکھتا ہوں کہ وہ پیغمبر میری اولاد سے ہو اور مجھے ایک فرزند عنایت فرما جو پیغمبر ہو اور پھر اگر میراث سے مراد علم کی میراث ہو تو پھر دعا میں اس جملے کی کیا ضرورت تھی خدا اسے محبوب اور پسندیدہ قرار دے کیونکہ جناب زکریا جانتے تھے کہ خداوند عالم غیر صالح اور غیر اہل افراد کو پیغمبری کے لئے منتخب نہیں کرے گا تو پھر اس جملے ”خدایا میرے فرزند کو پسندیدہ اور صالح قرار دے” کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس پوری گفتگو سے یہ مطلب واضح ہوگیا کہ جناب یحیی کی میراث جناب زکریا سے مال کی میراث تھی نہ کہ علم کی اور یہی آیت اس مطلب پر کہ پیغمبر(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح میراث لینے ہیں اور میراث چھوڑتے ہیں بہت اچھی طرح دلالت کر رہی ہے لہذا جو حدیث ابوبکر نے اپنے استدلال کے لئے بیان کی وہ قرآن کے مخالف ہوگی اور حدیث شناسی کے علم میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ جو حدیث قرآن مجید کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتی اور اسے دیوار پر دے مارنا چاہیئے اسی لئے تو جناب زہراء (ع) نے ”جو قوانین اور احکام شریعت اور حدیث شناسی اور تفسیر قرآن کو اپنے والد اور شوہر سے حاصل کرچکی تھیں” اس حدیث کے رد کرنے کے لئے اسی سابقہ آیت کو اس کے مقابلے میں پڑھا اور بتلایا کہ یہ حدیث اس آیت کی مخالف ہے کہ جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اور آیت کہ جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ پیغمبر(ص) بھی میراث لیتے ور میراث چھوڑتے ہیں یہ آیت ہے ”و ورث سلیمان داؤد” (3)۔
اس آیت میں خداوند عالم۔۔۔ سلیمان کے بارے میں فرماتے ہے کہ آپ جناب داؤد کے وارث ہوئے اور کلمہ وارث کا ظہور مال کی وراثت میں ہے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو تب تک اس سے مراد مال کی وراثت ہی ہوگی۔ اسی لئے تو حضرت زہراء (ع) نے ابوبکر کے مقابلے میں اس آیت سے استدلال کیا جب کہ حضرت زہراء (ع) قرآن کے نازل ہونے والے گھر میں تربیت پاچکی تھی۔
—
[2] سورہ مریم آیت 4۔
[3] سورہ نحل آیت 16۔
| فہرست |