قطع کلامی
جناب زہراء (ع) نے ارادہ کرلیا کہ اس کے باوجود بھی اپنے مبارزے کو باقی رکھیں، اپنے اس پروگرام کے لئے انہوں نے قطع کلام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور رسمی طور پر جناب ابوبکر کے متعلق اعلان کر دیا کہ اگر تم میرا فدک واپس نہیں کروگے تو میں تم سے جب تک زندہ ہوں گفتگو اور کلام نہیں کروں گی۔ آپ کا جہاں کہیں بھی جناب ابوبکر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھیر لیتیں اور ان سے کلام نہ کرتی تھیں(1)۔
مگر جناب فاطمہ (ع) ایک عام فرد نہ تھیں کہ اگر انہوں نے اپنے خلیفہ سے قطع کلامی کی تو وہ چندان اہمیت نہ رکھتی ہو؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزیز بیٹی رسول خدا(ص) کی حد سے زیادہ محبت کسی پر پوشیدہ نہ تھی ۔ آپ وہ ہے کہ جس کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ جو اسی اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے ۔(2)
اور آپ فرماتے ہیں کہ فاطمہ (ع) ان عورتوں میں سے ہیں کہ جن کے دیدار کے لئے بہشت مشتاق ہے ۔(3)
جی ہاں پیغمبر (ص) اور خدا کی محبوب خاتون نے جناب ابو بکر سے قطع کلامی کا مبارزہ کررہا ہے آپ ان سے بات نہیں کرتیں آہستہ آہستہ لوگوں میں شائع اور مشہور ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کی دختر جناب ابوبکر سے رتھی ہوئی ہے اور ان پر خشمناک ہے۔ مدینہ کے باہر بھی لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچکے تھے تمام لوگ ایک دوسرے سے سؤال کرتے تھے کہ جنا ب فاطمہ (ع) کیوں خلیفہ کے ساتھ بات نہیں کرتیں ؟ ضرور اس کی وجہ وہی فدک کا زبردستی لے لینا ہوگا ۔ فاطمہ (ع) جھوٹ نہیں بولتیں اور اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف کسی پر غضبناک نہیں ہوتیں کیونکہ پیغمبر خدا (ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کی اگر فاطمہ (ع) غضب کرے تو خدا غضب کرتا ہے۔
اس طرح ملت اسلامی کے احساسات روزبروز وسیع سے وسیع تر ہو رہے تھے اور خلافت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ خلافت کے کارکن یہ تو کرسکتے تھے کہ جناب فاطمہ (ع) کے قطع روابط سے چشم پوشی کرلیتے جتنی انہوں نے کوشش کی کہ شاید وہ صلح کرادیں ان کے لئے ممکن نہ ہوسکا۔ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹی ہوئی تھیں اور اپنے منفی مبارزے کو ترک کرنے پر راضی نہ ہوتی تھیں۔
جب جناب فاطمہ (ع) بیمار ہوئیں تو جناب ابوبکر نے کئی دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اسے رد کردیا گیا، ایک دن جناب ابوبکر نے اس موضوع کو حضرت علی (ع) کے سامنے پیش کیا اور آپ سے خواہش کی آپ جناب فاطمہ (ع) کی عیادت کا وسیلہ فراہم کریں اور آپ سے ملاقات کی اجازت حاصل کریں۔ حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) کے پاس گئے اور فرمایا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبکر نے ملاقات کی اجازت چاہی ہے آپ اجازت دیتی ہیں کہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں، جناب زہرا (ع) حضرت علی (ع) کے مشکلات سے آگاہ تھیں آپ نے جواب دیا، گھر آپ کا ہے اور میں آپ کے اختیار میں ہوں جس طرح آپ مصلحت دیکھیں عمل کریں یہ فرمایا اور اپنے اوپر چادران لی اور اپنے منہ کو دیوار کی طرف کردیا۔
جناب ابوبکر اور عمر گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہم سے راضی ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ میں ایک بات تم سے پوچھتی ہوں اس کا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض کی فرمایئےآپ نے فرمایا تمہیں خدا کی قسم دیتی ہوں۔۔۔ کہ آیا تم نے میرے باپ سے یہ سنا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے انہوں نے عرض کیا ہاں ہم نے یہ بات آپ کے والدسے سنی ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا اے میرے خدا گواہ رہ کہ ان دو آدمیوں نے مجھے اذیت دی ہے ان کی شکایت تیری ذات اور تیرے پیغمبر(ص) سے کرتی ہوں میں۔ ہرگز راضی نہ ہوں گی یہاں تک کہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذیتیں جو انہوں نے مجھے دی ہیں ان سے بیان کروں تا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کریں جناب ابوبکر جناب زہرا (ع) کی یہ بات سننے کے بعد بہت غمگین اور مضطرب ہوئے لیکن جناب عمر نے کہا اے رسول (ص) کے خلیفہ، ایک عورت کی گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو (5)۔
یہاں پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہ کہیں کہ گرچہ جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدک لے کر اچھا کام نہیں کیا تھا لیکن جب وہ پشیمانی اور ندامت کا اظہار کر رہے ہیں تو اب مناسب یہی تھا کہ ان کا عذر قبول کرلیا جاتا لیکن اس نکتہ سے غافل نہیں رہتا چاہیئے کہ حضرت زہرا (ع) کے مبارزے کی اصلی علت اور وجہ خلافت تھی فدک کا زبردستی لے لینا اس کے ذیل میں آتا تھا اور خلافت کا غصب کرنا ایسی چیز نہ تھی کہ جسے معاف کیا جاسکتا ہو اور اس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتی تھیں کہ حضرت ابوبکر یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں تا کہ اس اقدام سے عوام کو دھوکہ میں رکھا جاسکے اور وہ اپنے کردار پر نادم اور پشیمان نہ تھے کیونکہ ندامت کا طریقہ عقلا کے لحاظ سے یہ تھا کہ وہ حکم دیتے کہ فدک کو فوراً جناب فاطمہ (ع) کے حوالے کردو اور اس کے بعد آپ آتے اور معاف کردینے کی خواہش کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے اس اقدام پر پشیمان اور نادم ہوچکے ہیں تو اس بات کو صداقت پر محمول کیا جاسکتا تھا۔
—
[2] صحیح مسلم ، ج 3 ص 03ا۔
[3] کشف الغمہ ، ج 2 ص 92۔
[4] کشف الغمہ ، ج 2 ص 84۔
[5] بحار الانوار، ج 43 ص 198۔
| فہرست |